انتظامیہ تربت یونیورسٹی کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح چلا رہی ہے

ریاست اگر بلوچستان کے فرزندوں کے ہاتھوں میں کتابیں دیکھ کر گھبراتی ہے تو سمجھ میں آتا ہے مگر یہ فوبیا اگر ہماری قابل فخر جامعہ تربت کی انتظامیہ کو ہے تو یہ حیران کن بات ہے، کیونکہ وہ خود انہی سرکلوں کے سائے میں تربیت حاصل کر کے اس مقام تک پہنچے ہیں۔

انتظامیہ تربت یونیورسٹی کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح چلا رہی ہے

تربیتی نشستوں اور کتب بینی سے خوفزدہ سرکار کو ہونا چاہیے مگر تربت یونیورسٹی انتظامیہ کچھ زیادہ پریشان لگ رہی ہے۔

کتاب اور قلم کا سہارا لے کر بلوچ اور بلوچستان کی خدمت کرنے والی ہماری نوجوان نسل آئے روز کئی مشکلات و مصائب کا سامنا کرتی آ رہی ہے۔ اس عہد کے نوجوان قومی بقا و تشخص کی جدوجہد میں شعوری و فکری بنیادوں پر کلیدی کردار ادا کرتے آ رہے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے حصے کی جہدوجہد وہ نوجوانوں میں شعور و آگاہی پھیلا کر بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔ اس جدوجہد کے ذریعے وہ بلوچستان کا مقدمہ لڑنے کے لیے آنے والی نسل کو شعوری بنیادوں پر تیار کر سکتے ہیں۔ اس امید کے ساتھ آگے بڑھنا ایک نیک شگون ہے۔

کسی بھی معاشرے میں شعور و آگاہی پھیلانے میں جہاں تعلیمی اداروں کا کردار ہوتا ہے، وہیں حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے نوجوانوں کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

اگر اسی طرح بلوچ طلبہ سیاست کے تناظر میں ماضی اور حال کے بلوچستان کے تعلیمی اداروں کا تقابلی جائرہ لیا جائے تو ماضی کی نسبت موجودہ عہد میں ہمارا نظام تعلیم اور تعلیمی ادارے زیادہ زیر عتاب ہیں اور اسے کالونیل نظام کے تحت چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ماضی میں ہمارے تعلیمی ادارے نوجوانوں کی ذہنی و فکری تربیت کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے تھے، اب وہ ایک مخصوص بیانیہ کے تحت غلامانہ سوچ کی آبیاری کرنے میں مصروف ہیں۔

ہم بلوچستان بھر کے لکھے پڑھے اور خصوصاً کیچ کے نوجوانوں کی اس سوچ پہ فخر کر رہے تھے کہ وہ معاشرے میں کتب بینی کی روایت کو فروغ دینے میں پیش پیش ہیں۔ یہ پچھلے سال کی بات ہے جب کیچ میں سجے ایک کتاب میلے میں 35 لاکھ کی کتابیں فروخت ہوئیں اور ان کے پڑھنے والے نوجوان ہی ہیں۔ سب سے بڑھ کر خوشی کی بات یہ تھی کہ لاکھوں کی کتابیں حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے ہمارے عہد کے خوبصورت اور پختہ نظریہ کے نوجوانوں کی بغل میں نظر آئیں۔

ایک لمحے کے لیے میرے لیے یہ قابل فخر بات تھی کہ تربت یونیورسٹی نے انتہائی کم مدت میں کتابوں سے محبت کرنے والی ایک نسل ہمیں عطا کی ہے، مگر بہت مایوسی ہوئی جب یہ محسوس ہونے لگا کہ جس یونیورسٹی سے ہماری بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں، وہ ایک کالونیل طرز کے مائنڈ سیٹ کی پرورش کرتے ہوئے بلوچستان میں 'منی' ایسٹ انڈیا کمپنی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ جان کر کتنا دکھ اور کتنی تکلیف ہوتی ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو کتب بینی، تربیتی نشستوں سے اتنا خوف ہے جتنا اس ریاست کو ہے۔ ریاست اگر بلوچستان کے فرزندوں کے ہاتھوں میں کتابیں دیکھ کر گھبراتی ہے تو سمجھ میں آتا ہے مگر یہ فوبیا اگر ہماری قابل فخر جامعہ تربت کی انتظامیہ کو ہے تو یہ حیران کن بات ہے، کیونکہ وہ خود انہی سرکلوں کے سائے میں تربیت حاصل کر کے اس مقام تک پہنچے ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

چلیے ایک جائزہ جامعہ تربت کے طلبہ کے ساتھ ناروا سلوک کا لیتے ہیں، (ان اساتذہ سے پیشگی معذرت جو ہمارے اس مؤقف کی تائید کرتے ہیں)۔

مجھے تکلیف ان منصبوں پہ بیٹھے ہمارے عہد کے ان رہنماؤں کے رویوں سے ہوتی ہے کہ ان کے زیر تربیت ہم جیسے سیاست کے طالب علموں نے سیاسی عمل میں قدم رکھ کر ان کو اس لیے اپنا رہنما چنا کہ وہ زندگی کے کسی بھی مقام پر بلوچ کاز کے ساتھ اپنا فکری رشہ ختم نہیں کریں گے۔ مگر افسوس ہوتا ہے کہ انہی سرکلوں کے سائے میں تربیت حاصل کرنے والوں کی ایک جنبش قلم سے جامعہ تربت کے اطراف میں سرخ بیرکوں کے سائے میں بیٹھے چپکے چپکے اپنے عہد کے نوجوانوں کو وطن، مٹی، محرومی اور غلامی کی زنجیرں کے بارے میں بتانے والے ہمارے زمین زاد شہزادوں کو جو اس قوم کی تمام مسائل کو اپنے ناتواں کندھوں پہ لے کر بے سروسامانی کے عالم میں اس ویرانے میں سفر کر رہے ہیں، انہیں منشتر کر کے ان کے سرکلوں کو تاراج کر کے یونیورسٹی کو حاکموں کے ایما پر چلانے کی کوشش کرنا ذہنی غلامی کے سوا کچھ نہیں۔

یہ کل کی بات ہے جب جامعہ بلوچستان کے پروفیسر اور کیچ کے مہمان ڈاکٹر منظور بلوچ جامعہ تربت کے طلبہ کی دعوت پر ایک لیکچر پروگرام میں بطور مہمان شرکت کرنے آئے تھے۔ انہیں یونیورسٹی انتظامیہ کے کہنے پر سکیورٹی گارڈ گیٹ پر روک کر کس طرح ان کی تذلیل کرتے ہیں، ہمارے عہد کے نوجوان اس بات کے چشم دید گواہ ہیں۔ جبکہ منظور بلوچ خود اسی ادارے کی ایک باڈی کا ممبر بھی ہے مگر ان کی باتیں شاید اس عہد کے حکمرانوں کو ناخوشگوار گزرتی ہیں۔ اس لیے ان کا داخلہ ممنوع تھا۔ بعد میں ہمارے ایک دو استادوں (جن پر میں فخر کرتا ہوں) نے کیچ کی لاج رکھی، ان کے پاس گئے اور اس تمام تر صورت حال کی مذمت کی۔

اگر ہم آپ کے نصاب (معاشرتی علوم اور علم سیاسیات) میں فیل ہوئے تو ہمارے اکیڈمک کردار پر ضرور سوال اٹھائیے گا، اگر ہم نصاب کے علاوہ رسول حمزہ توف، گورکی یا منڈیلا کو پڑھتے ہیں تو اس میں آپ کو مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ آپ کا مسئلہ نہیں کہ ہم کیا پڑھیں گے، اگر ہم معاشرتی علوم میں فیل ہوئے تو ہم پہ اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے۔

اس سے قبل ہم نے دیکھا کہ بی ایس او کے مرکزی رہنماؤں کے یونیورسٹی میں داخلے پر پابندی، سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے داخلہ سٹال کو ہٹانا اور بی ایس او پجار کے تربیتی سرکل اور بک سٹال کو یونیورسٹی کے احاطے سے ہٹانا؛ یہ سب ذمہ داریاں جامعہ بلوچستان کی انتظامیہ نے بخوبی اور شاندار طریقے سے نبھائی ہیں۔ ان اقدامات کے باوجود یونیورسٹی انتظامیہ امید کرتی ہے کہ کوئی اس کے انتظام اور اکیڈمک امور پر بات تک نہ کرے۔

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 16 اور 17 اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ ہر شہری کو (فریڈم آف اسمبلی اور فریڈم آف ایسوسی ایشن) کا حق حاصل ہے اور اس حوالے سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسی بھی واضح ہے مگر تربت یونیورسٹی نے اپنی الگ سلطنت قائم کر رکھی ہے۔

تربت یونیورسٹی اگر ایک ترقی پسند اکیڈمک ادارے کی طرح معاشرے کے لیے خدمات سرانجام دیتی ہے تو ہم اس کی تعریفیں کرتے ہیں۔ اگر وہ اپنی چند ضروریات و مراعات کی خاطر اس ادارے کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح کولونیل طرز پر چلائے گی تو ہم ضرور آواز اٹھائیں گے۔

گہرام اسلم بلوچ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے میڈیا اینڈ جرنلزم سٹڈیز میں ماسٹرز کیا اور تحقیقاتی صحافی ہیں۔