1707میں اورنگزیب کی وفات کے بعد کمپنی کے لئے سب کچھ بدل گیا-
کلائیو نے برطانیہ واپس جا کر پارلیمنٹ میں ایک سیٹ خرید لی اور اپنے قرضے چکائے-مگر حالات نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ واپس ہندوستان جائے-کلکتہ کے بارے میں کلائیو کا خیال تھا کہ یہ بہتریں شہر ہے-ہندوستان کے مذاہب کے بارے میں گورے کوئی خاص پرواہ نہیں کرتے تھے –انہوں نے مقامی عورتوں سے شادیاں بھی کیں لیکن بچوں کو تعلیم کے لئے برطانیہ بھیج دیتے تھے-اس زمانے میں چکلوں کے باہر دروازوں پر طوائفوں کی تصاویر آویزاں ہوتی تھیں اور نرخ بھی -جہاں سے لوگوں کو جنسی بیماریاں بھی لگ جاتی تھیں-کلکتہ ایک مہنگا شہر تھا اور اکثر گورے مقامی لوگوں کے مقروض ہوتے تھے-
اس وقت مرشد آباد بنگال کا دارلخلافہ ہوتا تھا-اس زمانے میں بنگال ہندوستان کا سب سے امیر صوبہ تھا-بنگال کے نواب کو گوروں کے ارادوں کا علم تھا-میر جعفر نے غداری کی اور انگریزوں کا ساتھ دیا مگر انگریزوں نے اس کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا اور اسے آخری عمر میں گھر میں نظر بند کر دیا-میر قاسم کے بارے میں مصنف لکھتا ہے ‘
In the space of few months, Mir Qasim has transformed from being one of the richest and most powerful rulers in India to become Shuja’s shackled and penniless prisoner.’
میر قاسم آگرہ کے قریب کسمپرسی کی حالت میں مارا گیا اور اس کی بچوں کو باپ کے لئے کفن بھی نہ ملا-1770 میں انگریزوں کے بنگال پر قبضہ کے بعد قحط پڑگیا-چیچک کی وبا پھیل گئی-جس کی وجہ سے بنگال میں بہت زیادہ اموات ہوئیں اور لوگ اپنے بچے بیچنے پر مجبور ہو گئے-کلاِئیو کے خلاف جب پارلیمنٹ میں مقدمہ چلا تو اس میں لوگوں کی دلچسپیکےعالم کا آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ داخلہ کے ٹکٹ بلیک ہوئے-کلائو نے کہا کہ اس سے اس کی ساری جائیداد لےلیں مگر اس کو اس کی عزت لوٹادیں- اس نے یہ الفاظ ادا کیئے، ‘leave me my honour, take away my fortune’ گو اسے بے گناہ قرار دیا گیا مگر وہ اس صدمہ کو برداشت نہ کر سکا اور آخرکار اس نے نومبر 1774کو اس نے خودکشی کر لی۔
Samual Johnson 'نے لکھا
‘he acquired his fortune by such crimes that his consciousness of then impelled him to cut his own throat’
آج بھی گوروں کی ہندوستان پر حکمرانی کے بارے میں مختلف نکتہ نظر پائے جاتے مگر کمپنی کے ظلم و ستم، انسانیت سوز سلوک اور لوٹ مار کا اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ جب برطانیہ کی پارلیمنٹ میں وارن ہیسٹنگز کے خلا ف مقدمہ چلا جو کہدراصل فلپس فرانسس اور وارن ہیسٹنگ کی ذاتی لڑائی کا نتیجہ تھا، تو استغاثہ کے وکیل نے کلائیو پر الزام لگاتے ہوئے اسکے جرائم کچھ یوں بیان کیئے کہ
He is robber. He steals. He filches, he plunders, he extorts.
استغاثہ کی تقریر چار دن جاری رہی-اس نے مزید الزام لگایا-
Women of Bengal were dragged out, naked and exposed to public view, and scourged before all people. They put the nipples of the women into the sharp edges of split bamboos and tore them from their bodies.
یہ الزامات سن کر بعض عورتیں بے ہوش ہو گئیں اور کئی عورتوں نے زور زور سے رونا شروع کر دیا-
23 اپریل 1795 کو ہیسٹنگز کو بے گناہ قرار دے دیا گیا-
مصنف نے حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی بہت تعریف کی ہے-حیدر علی نے پونا میں کمپنی کو شکست دی۔ کمپنی اس بات سے حیران تھی کہ حیدر علِی کی فوج پوری طرح جدید اسلحہ سے لیس ہے اور جنگ میں وہی داّوپیچ استعمال کرتی ہے جو وہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد کمپنی نے گوروں پر مقامی حکمرانوں کی فوج میں بھرتی پر پابندی لگا دی-حیدر علی بیماری سے مر گیا اس کےبعد اس کا بیٹا ٹیپو سلظان حکمران بن گیا-
مصنف نے صفحہ 242 پر لکھا ہے کہ
‘Haider was of Punjabi origin, had risen in the rank of Mysore army’
البتہ یہ بات میں نے پہلی بار پڑھی ہے-اس کے بارے میں کوئی پنجابی ،محقق ہی تبصرہ کر سکتا ہے-
مصنف نے ٹیپو سلطان کا مشہور قول نقل کیا ہے کہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی موت بہتر ہے۔ کہتے ہیں کہ ٹیپو دوپہر کا کھانا کھا رہا تھا جب اسے خبر ملی کہ دشمن نے قلعہ کی دیوار کو توڑ دیا ہے تو وہ اسی لباس میں بغیر زرہ بکتر کے میدان جنگ میں کود پڑا اور لڑتے ہوئے شہید ہوگیا-
اس کی موت کے بعد سرنگا پٹم میں کئی روز تک لوٹ مار کی گئی- ٹیپو کے مرنے کے بعد قلعہ سے جو خزانہ ملا وہ گوروں کے تصور سے کئی گنا زیادہ تھا-آپ ان کی لالچ اور خود غرضی کا اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ ٹیپو کے تاج کو کاٹ کر آپس میں فوج نے بانٹ لیا-فوجیوں کو جو نواردات اور خزانہ ملا وہ بہت کم قیمت پر کلائو کی بہو ہینریٹا نے خرید لیا اور آج بھی ان کے پرائیویٹ میوزیم میں موجود ہے-
ٹیپو کو بہت بڑے جنازہ کے بعد اس کے باپ حیدر علی کے پہلومیں دفن کردیا گیا-جب لارڈ ولزولے کو ٹیپو کے مرنے کی خبر ملی تو اس نے جام اٹھا کر کہا، I drink to the corpse of India۔ مغلوں کے خلاف جو مقامی بغاوتیں ہوئین ان میں سب سے اہم مرہٹوں کی بغاوت تھی اورانہوں نے اپنی ریاست قائم کر لی-ان کوشکست دینے کے لئے شاہ عبدلعزیز نے افغان بادشاہ احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملہ کی دعوت دی جس نے مرہٹوں کو پانی پت کی لڑائی میں شکست دی-جس کے بعد احمد شاہ ابدالی کی فوج نے دلی میں بلا تمیز مذہب لوٹ مار اور قتل عام کیا-آخر مرہٹوں کے اندرونی جھگڑون اور اختلافات کی وجہ سے مرہٹوں کی طاقت ختم ہو گئی-75 سالہ مغل بادشاہ کا یہ حال تھا کہ وہ دلی کے قلعہ میں ایک قیدی تھا-جس نے اپنے مخالفین سے زیادہ عمر پائی-علی گڑھ کے قلعہ کے محاصرہ کے دوران کپمنی نے فرانسیسی جرنیل کے ساتھ خفیہ ساز باز کرکے اسے بھاگ جانے کا موقعہ دیا-
جب باشاہ کو اس کی خبر ملی تو اس کو اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ اب انگریزوں کو برتری حاصل ہو گئی ہے- تو اس نے ان سے مذاکرات شروع کر دئے-مغل مورخ خیر الدین نے لکھا-مغل بادشاہ نے مرہٹوں اور انگریزوں کے درمیان جنگ کو لال قلعہ کی چھت سے دیکھا-جب مرہٹوں کو شکست ہو گئی تو مغل بادشاہ نے انگریز جرنیل کو مبارک باد کا پیغام بھیجا اور کہا کہ وہ اپنے محسن کا استقبال کرنے کی لئے بے تاب ہے-نابینا بادشاہ کے بارے میں شاعر آرزو نے لکھا کہ 'وہ شطرنج کا بادشاہ ہے'- مغل بادشاہ کی آنکھیں غلام قادر روہیلہ نے نکال دی تھیں-اور وہ اب کمپنی کا وظیفہ خوار تھا-
اس جنگ کے بعد پچاس سال تک امن و امان رہا حتیِ کہ ہندوستان میں کمپنی کی حکومت کے خلاف بغاوت ہو گئی جسے ہم آزادی کی جنگ کہتے ہیں-10 مئی 1857 کو کمپنی کے راج کے خلاف اس کی فوج نے بغاوت کردی جس میں کمپنی نے ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا- اس کے بعد برطانیہ کے بادشاہ نے ہندوستان پر براہ راست حکمرانی شروع کر دی-1874 میں خاموشی سے ایسٹ انڈیا کمپنی ختم ہو گئی-
ایسٹ انڈیا کمپنی کے بارے میں بہت ساری تحقیق ہوئی ہے اور ہو رہی ہے-اردو والوں میں سب سے مقبول کتاب باری علیگ کی 'کمپنی کی حکومت' ہے-
ولیم ڈل رمپل کی کتاب انارکی یقینا تاریخ میں ایک بہت ہی گرانقدر اضافہ ہے- اس میں تاریخ اور سیاست کے طلبا اور محقین کے لئے انڈیا اور خاص کر انگریز کے ہندوستان میں اقتدار حاصل کرنے کی لئے جن جن مراحل سے گذرنا پڑا اور کمپنی نے کس طرح انڈیا کو لوٹا بہت ہی اہم اور دلچسپ مواد موجود ہے-سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ ایک کتاب ایکانگریز نے لکھی ہے- اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ برطانیہ میں بھی لوگ کمپنی کے ظلم و ستم، لوٹ ماراور استحصال کے خلاف آواز اٹھاتے تھے مگر پارلیمنٹ کے اراکین کو کمپنی رشوت دے کر انہیں کنڑول کرلیتی تھی- ‘The world’s first aggressive multi-national corporation was saved آخر کار 1857 کی جنگ آزادی کے نتیجہ میں برطانوی نے انڈیا کا کنڑول اپنے ہاتھ میں لے لیا اور جس کا خاتمہ 1947 میں ہوا-1833میں East India Company Bill منظور ہوا۔ Burke نے لکھا ہے کہ ‘The constitution of the Company began in commerce and ended in empire’مصنف کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں کمرشل اور امپیریل پاور کے درمیان رشتے کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے-کمپنی کے بارے میں کہا جاتا تھا- An empire with in an empire.مصنف کا کہنا ہے کہ یہ کمپنی کی تاریخ نہیں ہے-یہ کہانی بتاتی ہے کہ کمپنی نے اپنے مخالفین ---بنگال کے نواب، اودھ کے نواب ، ٹیپو سلطان، مرہٹوں اور شاہ عالم کو کیسے شکست دی
The Rohilla, Afghan, The Sikhs of Punjab and Jats of Deeg and Bharatpur—all began to curve independent states out of the cadaver of Mughal empire and to assume the mantle of kingship and governance.’
مصنف کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں کمرشل اور امپیریل پاور میں تعلق کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے-کیسے کارپوریشن سیاست اور سیاست کارپوریشن پر اثرانداز ہوتی ہے-مغربی سامراج اور کارپوریٹ سرمایاداری ، ایک ہی وقت میں دونوں کے ڈریگن کے دانت ہیں جو نئی دنیا کو کاٹ رہے ہیں- کتاب کے آخر میں مصنف نے لکھا ہے کہ
' The company’s conquest of India almost certainly remains the supreme act of corporate violence in the world.’ 'For all power wielded today by the world’s largest corporations –whether Exxon Mobil, Walmart or Google—they are tame beast compared with the ravaging territorial appetites of the East India Company.
'Corporations٫ Joint Stock Company, its influence certainly outweighs that of Communists, and Protestants Christianity and probably even of democracy'.
'In the twenty first century a powerful corporation can still overwhelm or subvert a state every bit as effectively as the East India Company did in Bengal in Eighteenth .’
'The most powerful among them do not need their own armies they can rely on governments to protect their market and bail them out’
مصنف کا یہ حقیقت پر مبنی بیان کہ آج کی کثیر الاقوامی کمپنیاں بھی وہی کچھ کررہی ہیں جو ایسٹ انڈیا کمپنی کرتی تھی مگر آج کی کارپوریٹ کو اپنی فوج نہیں رکھنی پڑتی کیونکہ آج ملکوں کی فوج ملٹی نیشنل کمپینیوں کے مفادات کی حفاظت کرتی ہیں اور بوقت ضرورت ان کو مالی بحران سے نکالنے کے لئے ان کی مالی مدد بھی کرتی ہیں-
'Four hundred and twenty years after its founding , the story of the East India Company has never been more current'.
مصنف کا یہ جملہ سوچنے والوں کو غور فکر کی دعوت دیتا ہے۔
ختم شد