امریکی حملے میں مارے جانے والے جنرل قاسم سلیمانی کا کردار اہم کیوں؟

امریکی حملے میں مارے جانے والے جنرل قاسم سلیمانی کا کردار اہم کیوں؟
ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی عراق میں امریکی افواج کے فضائی حملے میں موت کے بعد یہ سوال سامنے آ رہا ہے کہ آخر امریکہ نے اتنی حساس کارروائی کیوں کی؟ اور عراق کی زمین پر ایرانی سالمیت کو چیلنج کیوں کیا؟

امریکہ نے 62 سالہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو بغداد کے ہوائی اڈے پر ان کی کار میں ایک فضائی حملے میں نشانہ بنایا۔ جنرل سلمانی کے ہمراہ کار میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے عراقی کمانڈر بھی موجود تھے۔

پاسدارانِ انقلاب کی جانب سے قاسم سلیمانی کی موت کی تصدیق کر دی گئی ہے جبکہ امریکی محکمہ دفاع نے کہا ہے کہ انھیں صدارتی حکم پر نشانہ بنایا گیا۔

جنرل سلیمانی کا ایرانی حکومت میں ایک کلیدی کردار تھا۔ ان کی قدس فورس صرف رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کو جوابدہ ہے اور انھیں ملک میں ایک ہیرو تصور کیا جاتا تھا۔



جنرل سلیمانی سنہ 1998 سے پاسدارنِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ تھے۔ یہ یونٹ بیرونِ ملک خفیہ آپریشنز کرتا تھا۔ اس سے قبل انھوں نے 1980 کی دہائی میں ایران اور عراق کے درمیان لڑی جانے والی جنگ میں نام کمایا۔

جنرل سلیمانی اس حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں کہ انھوں نے شام کے صدر بشار الاسد کی باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں مدد کی اور کئی اہم شہروں اور قصبوں کو باغیوں سے چھڑانے میں کردار ادا کیا۔ ان اقدامات نے انھیں ملک میں ایک مقبول شخصیت بنا دیا تھا۔

ایران اور امریکہ نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے کے سخت حریف ہو سکتے ہیں لیکن عراق میں دولت اسلامیہ کے خلاف محاذ نے دونوں ممالک میں ایک بالواسطہ اشتراک قائم کیا۔ یہ وہ راستہ ہے جس کی جانب جنرل سلیمانی نے پہلے قدم بڑھایا تھا۔

2001 میں جب امریکہ نے افغانستان میں طالبان کے خلاف کارروائی شروع کی تو ایران نے امریکہ کو فوجی انٹیلیجنس فراہم کی تھی۔ اسی طرح 2007 میں واشنگٹن اور تہران نے اپنے نمائندے بغداد بھیجے تاکہ وہاں کی سکیورٹی صورتحال پر مذاکرات کریں۔

اس وقت سابق عراقی وزیراعظم نوری المالکی بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ تشدد سے نبرد آزما ہو رہے تھے۔ 2013 میں بی بی سی فارسی کی ایک دستاویزی فلم کے لیے ایک انٹرویو میں عراق میں سابق امریکی سفیر رائن کروکر نے بتایا تھا کہ جنرل سلیمانی کا بغداد مذاکرات میں اہم کردار تھا۔

رائن کروکر کے مطابق انھوں نے جنرل سلیمانی کے اثر و رسوخ افغانستان میں بھی محسوس کیا تھا جب وہ بطور امریکی سفیر افغانستان میں تعینات تھے۔

انھوں نے مزید بتایا کیا افغانستان کے حوالے ایران میں میرے باہمی میل جول کے لوگوں نے مجھ پر واضح کیا کہ وہ وزارت خارجہ کو مطلع رکھیں گے، آخرکار وہ جنرل سلیمانی ہی تھے جنہیں فیصلے لینے تھے۔

گذشتہ چند سالوں میں جنرل سلیمانی کا ایران کے خارجہ امور میں کردار مزید ابھر کر سامنے آیا تھا۔ وہ فون لائن کی دوسری طرف پائے جانے والے ایک چھپی ہوئی شخصیت نہیں رہے تھے۔ آج کل وہ ایران میں جانی پہچانی شخصیت ہیں۔

دسمبر 2014 میں مانامہ ڈائیلاگ سکیورٹی سمٹ کے دوران کینیڈین اور ایرانی شرکا کے درمیان جنرل سلیمانی کے کردار کے حوالے سے تند و تیز جملوں کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔

ٹرمپ انتظامیہ الزام لگاتی رہی ہے کہ قاسم سلیمانی کی قدس فورس لبنان کی حزب اللہ اور فلسطین اسلامک جہاد سمیت ایسے گروہوں کی مشرقِ وسطیٰ میں مدد کے لیے ایران کا بنیادی ڈھانچہ ہے، جنھیں امریکہ دہشت گرد قرار دے چکا ہے اور یہ فورس انھیں مالی مدد، تربیت، ہتھیار اور آلات فراہم کرتی ہے۔