سوات میں شدت پسندی، آپریشنز اور امن، کیا عوام کی قربانیوں کی قدر کی گئی؟

سوات میں شدت پسندی، آپریشنز اور امن، کیا عوام کی قربانیوں کی قدر کی گئی؟
'میرا بھائی بھی شہید ہوا ہے، وہ دریا میں بہہ کر تو نہیں آیا تھا بلکہ وہ بھی آرمی پبلک سکول پشاور کے طلبہ ہی کی طرح ایک شہید ہے لیکن ہمارا کسی نے نہیں پوچھا۔ حکومت کی طرف سے جو وعدے ہمارے ساتھ ہوئے تھے وہ آج تک ایفا نہیں ہوئے، ہمارے پاس اپنے بھائی کی شہادت پر ماتم کرنے اور مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔'

یہ الفاظ سوات میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے عروج کے دوران ہلاک ہونے والے سینیئر مقامی صحافی موسیٰ خانخیل کے بھائی عیسیٰ خانخیل ہیں جو خود بھی صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔

عیسیٰ خانخیل کا کہنا ہے کہ جس طرح آج کل دہشت گردی میں ہلاک ہونے افراد کی قربانیوں کی قدر کر کے ان کے ورثا کے ساتھ مالی معاونت کی جاتی ہے، اس طرح ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوا بلکہ ان شہدا کی قربانیوں کا مذاق اڑایا گیا جنہوں نے شدت پسندی کے عروج کے دوران اس مٹی کے خاطر جان قربان کی۔

موسیٰ خانخیل کا تعلق سوات کے شہر مینگورہ سے تھا۔ وہ جیو ٹی وی سے وابستہ ایک سینیئر صحافی تھے۔ 16 فروری 2009 کو سوات میں عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کی طرف سے طالبان جنگجوؤں کے ساتھ پہلا امن معاہدہ کیا گیا۔ اس کے تیسرے دن ہی یعنی 18 فروری کو موسیٰ خانخیل کو سوات کے علاقے مٹہ میں نامعلوم افراد کی جانب سے گولیاں مارکر ہلاک کیا گیا۔ اس معاہدے کے لئے تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کو خصوصی طورپر جیل سے رہا گیا گیا تھا۔ معاہدے پر دستخط مولانا صوفی محمد کی طرف سے کیے گئے جو اس وقت سوات طالبان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ مولانا صوفی محمد سوات طالبان کے امیر مولانا فضل اللہ کے استاد کے ساتھ ساتھ ان کے سسر بھی تھے۔



معاہدے کے بعد مولانا صوفی محمد سوات میں امن قائم کرنے کے لئے اپنے سینکڑوں حامیوں کے ہمراہ ریلیوں کی شکل میں مختلف علاقوں کے دورے کر رہا تھا اور موسیٰ خانخیل بھی ان کی ایک ریلی کی کوریج کے لئے مٹہ گئے ہوئے تھے جب انہیں وہاں فائرنگ کر کے مارا گیا۔

یہ وہ وقت تھا جب مٹہ اور آس پاس کے علاقوں میں مقامی انتظامیہ کی عمل داری انتہائی کمزور ہو چکی تھی اور بیشتر سرکاری عمارات سے پولیس اور دیگر سرکاری عملہ علاقہ چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو گیا تھا۔ تاہم، آج تک کسی تنظیم کی طرف سے موسیٰ خانخیل کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی ہے۔

موسیٰ خانـخیل کی عمر ہلاکت کے وقت 28 سال تھی۔ وہ غیر شادی شدہ تھے۔ عیسیٰ خانخیل کے مطابق ’ہم کل نو بہن بھائی تھے جن میں موسیٰ خانخیل کی ہلاکت کے ایک سال بعد جب ہم ان کی پہلی برسی منا رہے تھے تو عین اسی دن ہمارا ایک اور چھوٹا بھائی بجلی کا گرنٹ لگنے سے ہلاک ہو گیا۔ میرے والد صاحب گذشتہ سال اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ اب ہم سات بہن بھائی رہ گئے ہیں جب کہ ہماری والدہ ابھی تک حیات ہیں۔’

ان کے بقول ’آج تک ہمیں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ہمارے بھائی کو کس نے اور کیوں شہید کیا۔ اس وقت سوات میں دو فریق تھے، طالبان اور سکیورٹی فورسز، ایک صحافی پر دونوں کی رپورٹنگ کرنا لازم ہوتا ہے، اگر ایسے میں کوئی صحافی ہلاک ہوتا ہے تو شک کس پر جانا چاہیے، اس کے علاوہ میں زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔’

انہوں نے کہا کہ ان کے خاندان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی اور نہ وہ اس طرح کے لوگ ہیں۔

’اس ملک میں سچ بولنا اور لکھنا بہت مشکل ہے اور جو یہ کرتا ہے وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور یہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی دیکھا جب ہمارے کئی صحافی دوست سچ لکھنے اور کہنے کے پاداش میں اپنی جانوں سے گئے۔’

عیسیٰ خانخیل کے مطابق ’میرے بھائی کی شہادت پر ہمیں صرف صوبائی حکومت کی طرف سے تین لاکھ روپے دیے گئے۔ اس کے علاوہ جو وعدے ہوئے تھے جس میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے اسلام آباد میں ایک پلاٹ دینے کا اعلان بھی شامل تھا، اس کا آج تک کوئی پتہ نہیں چلا اور نہ ابھی تک کسی نے ہم سے رابط کیا ہے۔’



انہوں نے کہا کہ وہ ہر سال اپنے بھائی کی برسی خود ہی مناتے ہیں، کبھی حکومت یا ضلعی انتظامیہ کی طرف سے اس سلسلے میں ان کی کوئی معاونت نہیں کی گئی۔

’افسوس کی بات تو یہ ہے کہ لنڈا کئی کے مقام پر جہاں سے سوات کی حدود شروع ہوتی ہیں وہاں میں نے شہید بھائی موسیٰ خانخیل کی تصویر کے ساتھ ایک سائن بورڈ نصب کیا ہوا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ سوات میں امن کی خاطر اس صحافی نے بھی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے لیکن اس بورڈ کو نامعلوم افراد کی طرف سے متعدد بار اتارا گیا، میں نے پھر نصب کیا تو کسی نے پھر رات کے وقت ہٹا دیا۔ جب بھی کوئی وی آئی پی موومنٹ ہوتی ہے یا اعلیٰ سول و فوجی افسران سوات کا دورہ کرتے ہیں تو نامعلوم افراد کی طرف سے بورڈ کو ہٹا دیا جاتا ہے، یعنی آپ اس سے اندازہ کریں کہ شاید کچھ لوگ میرے بھائی کی شہادت تک کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں، امداد تو دور کی بات ہے۔’

خیبر پختونخوا کی وادی سوات میں 2007 میں سکیورٹی کی صورتحال خراب ہونی شروع ہو گئی تھی جب طالبان جنگجوؤں نے فوج اور پولیس اہلکاروں پر حملوں کا آغاز کیا۔ اس وقت صوبے میں مذہبی جماعتوں پر مشتمل متحدہ مجلس عمل کی حکومت قائم تھی۔ ابتدا میں طالبان سے نمٹنے میں حکومت کی طرف سے نرمی دکھائی گئی جس سے شدت پسندوں کے حوصلے بڑھے اور تھانوں اور حکومتی عمارات کو دھڑا دھڑ حملوں میں نشانہ بنانے لگے۔ اس دوران حکومت کی جانب سے سوات میں پہلی مرتبہ ایک ڈویژن فوج تعینات کی گئی اور ’آپریشن راہ حق’ کے نام سے کارروائیوں کا آغاز بھی کر دیا گیا۔ اس آپریشن کے دوران فوج نے چند ہی ہفتوں میں سوات کے قریباً ستر فیصد علاقے سے شدت پسندوں کو بے دخل کر کے انہیں پہاڑی مقام گٹ پیوچار کی طرف دھکیل دیا۔ تاہم، کچھ عرصہ کے بعد سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں پھر سے نرمی نظر آئی جس سے طالبان کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملا اور کچھ عرصے کے بعد وہ پھر سے سرگرم ہوئے اور نئے سرے سے کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔

اس طرح آپریشن میں نرمی گرمی کا یہ سلسلہ قریب دو سال تک چلتا رہا۔ اس دوران کبھی سکیورٹی فورسز کی طرف سے پھرتی دکھائی جاتی تو کبھی شدت پسندوں کی کارروائیوں میں تیزی آتی رہی۔ ان آپریشنز کو ’فرینڈلی آپریشن’ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ لیکن شدت پسندوں کی طاقت میں کمی کی بجائے وہ مزید مضبوط ہوتے گئے۔

2008 میں ملک میں عام انتخابات ہوئے جس کے نتیجے میں مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت جب کہ اس وقت کے صوبہ سرحد میں قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔

نئی مخلوط صوبائی حکومت نے امن کا نعرہ لگاتے ہوئے تمام معاملات مذاکرات کے ذریعے سے حل کرنے پر زور دیا اور اس دوران 2009 میں سوات طالبان اور حکومت کے درمیان ایک امن معاہدہ ہوا۔ لیکن معاہدے کے بعد وادی میں سکون کی بجائے مزید حالات خراب ہونے لگے۔ طالبان نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وادی سے دیگر اضلاع بونیر اور شانگلہ کی جانب پیش قدمی شروع کر دی جس سے امن و امان کی صورتحال بگڑنے کے ساتھ ساتھ شدید خوف کی کیفیت پیدا ہوئی۔

اس دوران ایک ایسا وقت بھی آیا جب سوات کے قریب ستر فیصد علاقے پر طالبان عملاً قابض ہو چکے تھے۔ مینگورہ شہر میں طالبان کھلے عام دن کے وقت اپنے مخالفین کو قتل کر کے ان کی لاشیں کئی گھنٹوں تک چوکوں میں لٹکایا کرتے تھے۔ طالبان جب بونیر کی جانب بڑھنے لگے تو ملک بھر میں ایک ایسا تاثر پھیلنے لگا کہ جیسے شدت پسند اسلام آباد سے چند گھنٹوں کے فاصلے پر ہیں لہٰذا وہ کسی بھی وقت دارالخلافہ کی طرف پیش قدمی کر کے وہاں قبضہ کر سکتے ہیں۔



اس دوران پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا اور مالاکنڈ ڈویژن میں شدت پسندوں کے خلاف مؤثر کارروائیوں کا فیصلہ کیا گیا۔ مئی 2009 میں پورے ملاکنڈ ڈویژن میں ’راہِ راست’ کے نام سے ایک بڑے فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا گیا جو شدت پسندوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ تاہم، اس آپریشن کے ساتھ ہی ملاکنڈ ڈویژن سے تاریخ کی سب سی بڑی نقل مکانی ہوئی۔ 20 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے۔ ملاکنڈ ڈویژن کے عوام نے اس وقت کی سخت گرمی میں لاتعداد قسم کی مشکلات کا سامنا کیا۔

سوات کے سینیئر صحافی اور مقامی روزنامہ شمال کے چیف ایڈیٹر غلام فاروق کا کہنا ہے کہ زندگی میں کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کیا ہے لیکن وہ تکلیف دہ تین مہینے کبھی نہیں بھول سکتے جب ہم اپنے گھروں کو چھوڑ کر دیگر شہروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

’ہم تین مہینے تک ایبٹ آباد میں رہے، بہت کھٹن وقت تھا، آج بھی اس وقت کو یاد کرتے ہیں تو خوف کی کفیت طاری ہوتی ہے۔ ان دنوں ایبٹ آباد میں گھر ملنا بہت مشکل ہو گیا تھا، وہاں کے ڈی سی نے حکم جاری کیا تھا کہ سوات کے لوگوں کو کرائے پر مکانات نہ دیے جائیں۔ پھر ایک دوست کے توسط سے وہاں بہت تگ و دو کے بعد چھوٹا سا مکان کرائے پر ملا۔’

انہوں نے کہا کہ 2007 سے 2014 تک سوات قہر اور آفات کا مرکز بن چکا تھا۔ پہلے دہشتگردی کی وجہ سے لوگوں نے بڑی قربانیاں دیں، پھر نقل مکانی میں مشکلات کا سامنا کیا اور حالات ابھی تھوڑے بہتر نہیں ہوئے تھے کہ 2010 کا تاریخی اور بدترین سیلاب آیا۔ اس کے بعد جو تھوڑی بہت رہی سہی کسر تھی وہ تباہ کن زلزلے نے پوری کر دی۔

’ایسا لگ رہا تھا جیسے سوات کے عوام پر قہر کے قہر ٹوٹ رہے ہیں لیکن اس سے بھی بڑی بدقستمی کی بات یہ ہے کہ سوات کے عوام نے پاکستان کی بقا کی خاطر جتنی بڑی بڑی قربانیاں دیں، حکومت نے اتنا ہی ان کو نظر انداز اور ذلیل و رسوا کیا۔’

انہوں نے کہا کہ سوات میں امن تو قائم ہو چکا ہے لیکن یہ سب کچھ عارضی لگ رہا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اپ کچھ وقت کے لئے ایک چیز پر پاؤں رکھ دیں اور جونہی اپ پاؤں ہٹاتے ہیں تو وہاں سے پھر لاوا ابل پڑتا ہے، یہاں آنے والے دنوں میں ایسے ہی حالات پیدا ہوں گے۔

’میرا اپنا ایک بھائی بم دھماکے میں شہید ہوا، میرے اخبار روزنامہ شمال کے دفتر پر تین مرتبہ چھاپے مارے گئے، ہمارا قصور کیا تھا؟ یہی کہ ہم سچ لکھتے تھے؟ لیکن ہمیں اس کی بڑی سزا دی گئی۔’

غلام فاروق کے بقول سوات آپریشن کے بعد سوات کا میڈیا بھی بری طرح زورال کا شکار ہو چکا ہے۔ یہاں سے پہلے درجن بھر سے زیادہ اخبارات اور رسائل شائع ہوتے تھے لیکن اب ان میں چند ہی رہ گئے ہیں، صحافی انتہائی خوف کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ بدستور دھمکیوں کا سامنا کر رہے ہیں، جس سے وہ آزادانہ طورپر کام بھی نہیں کر سکتے۔

سوات میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اگر ایک طرف بڑے پیمانے پر جانی نقصانات ہوئے، وہیں مقامی معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ وادی میں سیاحت کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے جس سے ضلع کی بیشتر آبادی کا روزگار لگا ہوا ہے لیکن آپریشنز کی وجہ سے ہوٹلنگ اور سیاحت کی صنعت انتہائی شدید بدحالی کا شکار ہوئی جس سے مقامی تاجروں کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔

عبد الرحیم سوات ٹریڈرز اسوسی ایشن کے صدر ہیں۔ ان کی تنظیم ضلع کی سطح پر 21 چھوٹی بڑی تاجر تنظیموں پر مشتمل ہے جس سے 24 ہزار سے زیادہ تاجر منسلک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سوات کے تاجروں اور عوام نے پاکستان کی خاطر اتنی بڑی جنگ لڑی اور اس کے لئے جان و مال سے بھی دریغ نہیں کیا لیکن افسوس کہ جو قربانیاں دی گئیں ان کی تلافی کی گئی اور نہ ان کی قدر کی گئی۔ بلکہ حکومت کے رویے سے لگتا ہے کہ جیسے ان قربانیوں کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کیا جا رہا ہے۔

’پہلے شدت پسندی کی لعنت نے ہمیں چاروں اطراف سے گھیرا ہوا تھا، پھر جب آپریشن شروع ہوا تو ملاکنڈ بھر کی تجارت بیٹھ گئی، ہمارے کئی تاجروں نے جان کے نذرانے پیش کیے، لاتعداد دکانیں مارٹر گولوں کا نشانہ بنیں، دھماکوں میں تباہ ہوئیں، پھر ہماری مقامی معشیت کی ریڑھ کی ہڈی سیاحت اور ہوٹل انڈسٹری کو جو ناقابل تلافی نقصان ہوا آج تک ہم اس سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ طالبانائزیشن کے دوران تاجروں کو روزانہ بھتے کی کالیں آیا کرتی تھیں جس کی وجہ سے کئی تاجر علاقہ چھوڑ کر دوسرے شہروں میں منتقل ہو گئے تھے۔



عبدالرحمان کے بقول ’نقل مکانی کے دوران ہم بہت بے عزت اور ذلالت کا شکار ہوئے، سوات کے لوگ برسہا برس سے مالی طورپر خوشحال رہے ہیں لیکن نقل مکانی نے ہمیں پائی پائی کا محتاج کر دیا تھا۔ ہم قطاروں میں کھڑے ہو کر امداد کے منتظر ہوتے تھے جیسے کوئی بھیک مانگتا ہو۔ کبھی ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمارے ساتھ ایسا کچھ بھی ہوگا لیکن افسوس جو تکالیف اور قربانیاں عوام نے دیں، سواتی عوام کو اس کا کوئی صلہ نہیں ملا۔’

ایک سوال کے جواب میں عبدالرحمان نے کہا کہ بظاہر تو سوات میں سکیورٹی کی حالت بہتر ہے لیکن یہ سب عارضی دکھائی دے رہا ہے کیونکہ حال ہی میں سوات میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پیش آئے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں ابھی مکمل امن قائم نہیں ہوا ہے۔

’اب بھی عوام میں خوف کی کفیت ہے، تاجروں کو افغانستان سے بھتہ دینے کی کالیں بدستور آ رہی ہیں، سکیورٹی ادارے تعاون کرتے ہیں اور کارروائی بھی ہوتی ہے لیکن اس طرح کے واقعات سے لوگوں میں خوف و ہراس کی کفیت تو پیدا ہوتی ہے جس کا ختم کرنا بہت ضروری ہے۔’

سوات میں امن کی بحالی میں فوج اور پولیس اہلکاروں کی قربانیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ فرنٹ لائن پر لڑنے والے ان اہلکاروں نے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کا بھی بھرپور ساتھ دیا اور ان کو اپنے اپنے علاقوں میں دوبارہ آباد کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ان میں بعض ایسے اہلکار بھی شامل ہیں جنہیں طالبان کی طرف سے اغوا کیے کئی سال ہو چکے ہیں لیکن آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ زندہ ہیں یا مار دیے گئے۔ ایسے اہلکاروں کے اہل خانہ آج بھی اس آس پر زندہ ہیں کہ ہو سکتا ہے ان کا چشم و چراغ کسی دن اچانک دوبارہ سے گھر لوٹ آئے۔

ایسی ہی آس لگانے والوں میں عمر رحمان کا خاندان بھی شامل ہے۔

عمر رحمان پولیس ڈپارٹمنٹ میں سپاہی تھے۔ ان کا تعلق سوات کے علاقے کانجو سے ہے۔ وہ گذشتہ 12 سال سے لاپتہ ہیں۔ عمر رحمان کے بڑے بھائی نور حلیم گل کا کہنا ہے کہ 2009 کی بات ہے جب سوات پر طالبان کا قبضہ تھا۔ اچانک درجنوں مسلح طالبان چاروں اطراف سے ان کے گھر کا گھیراؤ کر کے زبردستی اندر داخل ہوئے اور ان کے بھائی عمر رحمان کو بندوق کی نوک پر اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔

’میرے بھائی کا قصور یہ تھا کہ وہ محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ ان کو پہلے بھی طالبان کی طرف سے دھمکیاں دی جا رہی تھیں کہ وہ پولیس کی نوکری چھوڑ دیں ورنہ ان کے لئے اچھا نہیں ہوگا۔ عمر رحمان نے ان دھمکیوں کی وجہ سے آٹھ ماہ تک پولیس کی نوکری کو خیرباد کہہ دیا تھا لیکن جب حالات کچھ بہتر ہوئے تو انہوں نے دوبارہ سے ڈیوٹی پر جانا شروع کر دیا اور پھر کچھ عرصے کے بعد انہیں اغوا کر لیا گیا۔’



لاپتہ پولیس اہلکار عمر رحمان کے پانچ بچے ہیں جن میں سب سے چھوٹا بیٹا عثمان والد کے اغوا ہونے کے بعد پیدا ہوا۔ عثمان نے کبھی اپنے والد کی شکل نہیں دیکھی ہے۔

عمر رحمان کی 17 سالا بیٹی لائبہ بھی وہاں موجود تھی۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا انہیں وہ منظر یاد ہے جب ان کے والد کو اغوا کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس وقت اگرچہ ان کی عمر کم تھی لیکن انہیں اتنا یاد ہے کہ وہ سو رہی تھیں کہ اچانک گھر میں شور شرابا شروع ہوا۔ ان کی آنکھ کھلی تو دیکھا ان کی والدہ زور زور سے چیخ رہی تھیں، چلا رہی تھیں، کچھ مسلح لوگ ان کے والد کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔

لائبہ نے جب والد کے اغوا کی بات شروع کی تو ساتھ ہی وہ خود پر قابو نہیں رکھ سکیں اور زور زور سے رونے لگیں۔ چچا کی طرف سے تسلی کے بعد وہ خاموش ہو گئیں۔

عمر رحمان کے بچے اپنے باپ کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے کئی سالوں سے ترس رہے ہیں اور آج بھی یہ امید لگائے ہوئے ہیں کہ ہو سکتا ہے کسی دن ان کے ابو اچانک سے دوبارہ گھر لوٹ آئیں۔

نور حلیم گل کا کہنا ہے کہ پولیس کی طرف سے ان کی بھابھی، بھتیجوں اور بھتیجیوں کو پولیس پیکج ملا ہے اور انہیں ماہانہ پنشن بھی مل رہی ہے جب کہ کبھی کبھار پولیس اہلکار ان کے گھر بھی آتے ہیں مگر ابھی تک ورثا کو محکمہ پولیس کی طرف سے کوئی ایوارڈ یا نوکری نہیں ملی۔

پروفیسر احمد فرید سوات کے ایک دانشور ہیں جو احمد فواد کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ وہ اردو اور پشتو کے شاعر بھی ہیں اور اب تک شاعری کی چار کتابیں لکھ چکے ہیں۔ وہ سوات کی تاریخ پر پروفیسر سلطان روم کی طرف سے لکھی گئی مشہور زمانہ انگریزی کتاب ’سوات سٹیٹ’ کا اردو ترجمہ بھی کر چکے ہیں۔

پروفیسر احمد کا کہنا ہے کہ وادی سوات سے اب شدت پسندوں کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے اور اس میں یقیناً سکیورٹی فورسز کا بڑا کردار تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ سوات کے عوام کی قربانیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔



’شدت پسندی اور آپریشن کے بعد سوات کے معاشرے میں کئی سماجی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ یہاں اپ کو ملک کے ہر صوبے اور علاقے کے لوگ ملیں گے، وہ یہاں تجارت بھی کرتے ہیں، رہتے بھی ہیں، حالانکہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ رش بہت ہو گیا ہے۔ لوگوں میں قوت برداشت کی کمی نظر آتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑے، ایسا لگتا ہے جیسا سوات مکمل تبدیل ہو چکا ہو۔’

ان کے بقول ’ہمارا گاؤں کبل دہشت گردی اور آپریشنز کی وجہ سے تباہ ہو گیا تھا۔ لوگوں نے اپنے مکانات، دکانیں اور اپنی نجی املاک دوبارہ سے تعمیر کروائیں، جتنی عوام نے قربانیاں دیں، ان کی اتنی قدر نہیں کی گئی۔ اگر حکومت یہ بات مانتی ہے کہ اس جنگ کے جیتنے میں عوام کا بھی کوئی کردار تھا تو پھر ان کی قدر بھی ہونی چاہیے تھی۔ اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا کہ اگر کسی کا دو کروڑ روپے کا گھر تباہ ہوا، تو اس کو آپ تین لاکھ روپے پر ٹرخا دیں۔’

سوات میں کامیاب فوجی آپریشن کے بعد جب امن و امان بحال ہوا تو حکومت اور سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں پر نظر رکھنے کے لئے عوام پر مشتمل طالبان مخالف امن کمیٹیاں قائم کیں جنہیں بعد میں ’ولیج ڈیفنس کمیٹی’ کا نام دیا گیا۔ یہ کمیٹیاں ضلع بھر میں گاؤں کی سطح پر قائم کی گئیں جس کا بنیادی مقصد شدت پسندوں کی نقل و حمل پر نظر رکھنا تھا۔

طالبان نے مـختلف علاقوں میں امن کمیٹیوں کے اہلکاروں پر متعدد حملے کیے اور اس دوران درجنوں طالبان مخالف اہلکار ہلاک بھی ہوئے۔

فضل ودود کوزہ بانڈئی ولیج ڈیفنس کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ وہ سابق یونین کونسل کے ناظم بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2007 میں ان کے بھائی بہر کرم امن کمیٹی کے چیئرمین تھے لیکن وہ اسی سال اپنے ساتھی سمیت شدت پسندوں کے حملے میں مارے گئے جس کے بعد یہ ذمہ داری انہیں تفویض کی گئی۔

ان کے بقول ’مجھ پر بھی طالبان تین مرتبہ حملہ کر چکے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا ہے۔ اب تو سوات میں بہت حد تک امن بحال ہو چکا ہے لیکن ولیج ذیفنس کمیٹیاں ابھی بھی قائم ہیں اور باقاعدہ طورپر فعال ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ جب کوئی طالبان مخالف امن کمیٹی کی سربراہی کرتا ہے تو وہ مسلسل خطرے میں ہوتا ہے اور وہ بھی ایسی ہی حالت سے گزر رہے ہیں لیکن ملک و قوم کی خاطر یہ قربانی تو دے رہے ہیں۔

سوات میں دہشت گردی کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنما بھی شدت پسندوں کے حملوں کا نشانہ بنے جس میں قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے کارکن خصوصی طورپر قابل ذکر ہیں۔

وادی میں جب امن و امان کی صورتحال بہت زیادہ بگڑنے لگی تو اس وقت صوبے میں عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کی ملخوط حکومت قائم تھی۔ صوبائی حکومت نے ابتدا میں فوجی کارروائی کی بجائے مذاکرات کے ذریعے سے تمام معاملات حل کرنے کی کوشش کی۔ اس سے پہلے حکومت نے شدت پسندوں کا سب سے بڑا مطالبہ شرعی نظام عدل پورا کرتے ہوئے اس کا نفاذ کر دیا تھا جس کے تحت ضلع بھر کی عدالتوں میں علاقہ قاضیوں کو مقرر کر دیا گیا تھا۔

یہ عدالتیں ’شرعی نظام عدل ریگولیشن’ کے نفاذ کے ساتھ ہی قائم کی گئیں جس کا حکومت کی طرف سے باقاعدہ طور پراعلامیہ جاری کیا گیا تھا۔ علاقہ قاضی دراصل جج ہی ہوتے تھے۔ تاہم، صوفی محمد اور طالبان کے مطالبے پر ججوں کا نام علاقہ قاضی رکھ دیا گیا تھا۔

یاد رہے کے 90 کے عشرے میں بھی تحریک نفاذِ شریعتِ محمدیؐ کے سربراہ مولانا صوفی محمد نے اپنے ہزاروں مسلح ساتھیوں کے ہمراہ پورے مالاکنڈ ڈویژن میں نظام عدل کے نفاذ کے لئے مسلح تحریک کا اغاز کیا تھا۔ تحریک کے جنگجوؤں نے کئی دنوں تک پورے مالاکنڈ ڈویژن میں احتجاج کرتے ہوئے سب کچھ جام کر دیا تھا جس میں ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔ بعد میں اس وقت کی صوبائی حکومت نے صوفی محمد کا مطالبہ مانتے ہوئے شرعی نظام عدل کا نفاذ کر دیا تھا۔

سوات میں امن معاہدے کے بعد کچھ دنوں تک تو خاموشی چھائی رہی لیکن پھر اچانک طالبان نے سوات سے ملحقہ ضلع بونیر پر چڑھائی کی اور وہاں قبضہ کرنے کی کوشش کی جس پر حکومت کی طرف سے ان پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔

یہ پہلا موقع تھا جب صوبائی حکومت میں شامل اے این پی کے رہنما کھل کر طالبان کو ’دہشت گرد’ کہہ کر پکارنے لگے اور ان کو شدید تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا۔

آپریشن کے بعد جب بے گھر افراد دوبارہ اپنے اپنے علاقوں میں واپس آ گئے اور کچھ حالات بہتر ہوئے تو طالبان کی طرف سے اپنے مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہوا جس میں پہلا نشانہ اے این پی کے کارکن تھے۔

ان واقعات میں عوامی نیشنل پارٹی کے کئی پارٹی ورکرز مارے گئے جن میں وزرا اور ایم پی ایز بھی شامل تھے۔ اے این پی کا دعویٰ ہے کہ دہشت گردوں کی کارروائیوں میں ان کے صوبہ بھر میں چھ سو سے زائد کارکن اور رہنما لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

ہلاک ہونے والوں میں اے این پی سوات کے سرکردہ رہنما ڈاکٹر شمشیر علی خان بھی شامل تھے۔

شمشیر علی 2008 کے عام انتخابات میں سوات سے اے این پی کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ ان کے والد عبد الرشید خان سوات میں اے این پی کے بانیوں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ علاقے میں ڈھرئی بابا کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔

ڈاکٹر شمشیر علی خان 2010 میں طالبان کی جانب سے ایک خودکش حملے میں مارے گئے تھے۔



ان کی ہلاکت کے بعد خالی ہونے والی نشست پر شمشیر علی خان کے چھوٹے بھائی رحمت علی خان ضمنی انتخاب میں حصہ لے کر کامیاب ہوئے۔ رحمت علی آج کل عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی ایڈیشنل جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائض ہیں۔

’میں کیا بتاؤں آپ کو، کہاں سے شروع کروں؟ ہمارے خاندان پر تو ظلم کے پہاڑ ٹوٹے۔ پوری ایک داستان ہے جس پر کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ میرا ایم پی اے بھائی، بھتیجا اور ہمارا پولیس محافظ شہید کیے گئے جب کہ ایک بھائی شدید زخمی ہوا جو آج تک روبہ صحت نہیں ہو سکا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ جب آپریشن شروع ہوا تو سارا سوات نقل مکانی کر کے خالی ہو گیا تھا لیکن ان کا آدھا خاندان جس میں ان کے والد بھی شامل تھے اپنے گاؤں میں موجود رہے۔

’ایک رات سو سے زیادہ طالبان ہمارے حجرے کا گھیراؤ کر کے اچانک داخل ہوئے اور میرے بھائی، بھتیجے اور ہماری حفاظت پر مامور دو پولیس اہلکاروں کو بندوق کی نوک پر اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ بعد میں ہمارے حجرے کو بھی بم دھماکوں سے نشانہ بنا کر تباہ کر گئے۔’

رحمت علی کے مطابق اب سوات میں امن تو بحال ہو چکا ہے لیکن بدستور ٹارگٹ بنا کر قتل کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب سوات میں فوجی چھاؤنیاں بھی بنائی گئی ہیں لیکن طالبان کی کارروائیاں مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکیں بلکہ ان علاقوں میں واقعات ہو رہے ہیں جہاں آس پاس پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی زیادہ ہوتی ہے۔

مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔