کرونا وائرس کی وبا نے عالمی سطح پر معاشرت، معیشت، سیاست، صنعت و حرفت، تعلیم و تدریس سمیت قانون اور طرز حکومت کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت زندگی کا ہر شعبہ ایک واضح بھونچال کا شکار ہے اور دور دور تک اس کے تھمنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔
ایسے میں سب سے بڑا زلزلہ انسانی تخیل اور نفسیات میں برپا ہوا ہے کیونکہ حضرت انسان مجموعی طور پر اس وبا کو تاحال نہ صرف سمجھنے سے قاصر ہے اور وہ اس حقیقت کو بھی قبول کرنے سے گریزاں ہے کہ اب کرہ ارض پر انسانی زندگی یکسر مختلف ہوگی۔ شاید یہ خیال ایک بہت بڑی نفسیاتی غیر یقینی کا باعث بنتا ہے۔ اس غیر یقینی کو مٹانے کے لئے ہر انسانی اپنی دانست کے مطابق سیاسی، سماجی اور اپنے مذہبی عقائد کے خام مال سے ایک ایسا جام جمشید تراشنے کی کوشش کرتا ہے جس میں وہ جھانک کر ماضی حال اور مستقبل کے تمام سوالوں کا جواب پا کر اپنی غیر یقینی کو مٹا سکے۔ البہ ابھی بھی ایسا طبقہ موجود ہہے جو سائنس کے ساتھ جڑا ہے اور سمجھتا ہے کہ سائنس ماضی کے تجربات کی روشنی میں ایک ہٹ اینڈ ٹرائل میتھڈ ہے جس میں ناکامیاں کامیابی کی راہ ہموار کرتی ہیں اور ایسا ہی کرونا وائرس کے علاج کے حوالے سے بھی ہوگا۔
اب چونکہ مذاہب اس دنیا و کائنات میں ہونے والے ایک ایک واقعہ اور اسکے پیچھے چھپے اذن ربی کا علم رکھنے کا دعویدار ہے اور مذاہب کے ماننے والے ان مذہاب کے پیشواؤں، مولویں، علامہ، پنڈت، پادریوں یا گرووں اور رہبوں کی جانب رہنمائی کے لئے دیکھ رہے اور مذہب کا علم رکھنے کے دعویدار ان شخصیات پر دباؤ ہے کہ وہ کرونا وائرس کے پیچھے چھپے اسرا اپنے مریدین پر وا کردیں۔ لیکن ظاہر ہے وہ ایسا نہیں کرسکتے کیوں کہ انہیں خود بھی شاید ایک عام آدمی سے بھی کم معلوم ہے کیونکہ ان میں سے اکثر انگریزی اور تکنیکی زبان میں لکھے سائنسی مقالے پڑھنے سے قاصر ہیں اور انکا دھندا ان کو پڑھے بغیر بھی چل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اپنے مریدین کے زندگی کی غیر یقینی سے نکلتے سوالات کو مطمئن کرنے کے لئے ایسی ایسی سازشی تھیوریاں گھڑتے ہیں کہ اپنی بدنامی کا تو باعث بنتے ہی ہیں بلکہ مذہب پر بھی سوالات اٹھانے والوں کو موقع فراہم کرتے ہیں۔
ایسا ہی معاملہ ملک کے معروف مذہبی سکالر علامہ کوکب نوارنی اوکاڑوی کا ہے جن کی ایک ویڈیو آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہوئی ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ کرونا وائرس کا مرض اگر آپ کو لگ جائے یا کوئی اور مسئلہ بھی ہو تب بھی آپ نے ہسپتال نہیں جانا کیونکہ اگر آپ وہاں گئے تو واپس نہیں آئیں گے۔ کیوںکہ ڈاکٹروں کو مریض مارنے کی ڈونیشن مل رہی ہے۔ وہ آپ کو وینٹی لیٹر پر چڑھا کر اگلے جہاں پہنچا دیں گے۔ وہ گھر والوں کو ملنےبھی نہیں دیتے کیونکہ وہ جیسے مار رہے ہیں وہ دنیا کے آگے آجائے گا۔ تاہم یہ اب سامنے آرہا ہے۔ کرونا یہودیوں کی سازش اس لئے ہے کیوں کہ یہودی اب اسکی ویکسین بنا کر اس میں ایک چپ ڈالیں گے اور جب وہ ویکسین مسلمانوں یا کسی بھی انسان کو لگائی جائے گی وہ چپ اسکے جسم میں داخل کر کے ٹکا دی جائے گی۔ اس چپ سے آپ کا مزاج کنٹرول کیا جائے گا۔ وہ کیا سوچتے ہیں کیا کرنے لگے ہیں سب یہودیوں کو پہلے سے پتہ ہوگا۔ اسی طرح مولانا کوکب نورانی کا اس ویڈیو میں کہنا تھا کہ یہودی بٹ کوائین کی طرح ایک کرنسی کو پوری دنیا پر نافذ کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح وہ کرنسی کا نظام بھی اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں تاکہ جب چاہیں جسے چاہئیں کنٹرول کرسکیں۔ دو منٹ کی اس ویڈیو میں مریدین انکے انکشافات پر جھومتے چلے جا رہے ہیں۔
اب اس سوچ پر حیران ہوں رووں یا جگر کو پیٹوں میں کے مصداق انسان صرف کف افسوس ہی مل سکتا ہے کہ اس ذہنی صلاحیت کے افراد اس ملک میں علامہ اور سکالر کہلاتے ہیں۔ نہ صرف مذہبی اثرو رسوخ رکھتے بلکہ سیاسی طور پر بھی باوزن ثابت ہوتے ہیں۔
اب مولانا کوکب نورانی سے اگر کوئی یہی پوچھ لے کہ حضور ایک چپ کو انجیکشن کے ذریعے انسانی جسم میں گھسائے گا کون؟ جس چپ کا سائز مولانا کوکب نورانی اپنی ویڈیو میں ہاتھ کے اشارے سے بتا رہے ہیں اسکے لئے تو ایک خوفناک ٹیکہ ایجاد کرنے کی ضرورت ہوگی۔
دوسرا یہ کہ ویکسین پٹھوں میں لگے گی تو چپ پٹھوں میں کیسے ٹکے گی؟ کیونکہ انسانی جسم کا خاصہ یہ ہے کہ یہ کسی بھی بیرونی اجسام کے جسم میں داخلے کی صورت میں بخار، درد، پیپ اور سوزش کی کی علامات ظاہر کرکے انسان کو مجبور کر دیتا ہے کہ ان بیرونی اجسام کو فوری طور پر جسم سے نکالا جائے۔ اگر نہیں یقین آتا تو لکڑی کا معمولی سا کانٹا پٹھوں میں گھسا کر دیکھئے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔
اور پھر یہ سوال بھی کہ پور دنیا کی آبادی 8 ارب کو پہنچنے والی ہے اتنی بڑی آبادی کے پل پل کے مزاج کا ریکارڈ کیسے رکھا جائے گا؟ اتنے بڑے سرورز فوری طور پر کہاں سے آئیں گے اور ان مزاجوں میں ہونے والی خفیف سی تبدیلیوں کو کوئی سسٹم کیسے پرکھ پائے گا کہ یہی تو آرٹیفشیل انٹیلیجنس کے 100 فیصد موثر ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لیکن کیا کریں نورانی صاحب کے لئے یہ سب سوچنا دھندے میں مندے کے مترادف ہوگا۔
پھر موصوف نے ایک کرنسی کی بات کی۔ وہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ انہیں مالیاتی پالیسیوں اور کرنسی کے سسٹم کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں۔ کوکب نوارنی کی اس بات کے جواب میں عالمی مالیاتی نظام کی زیادہ تفصیل میں جانا بھی شاید وقت کا ضیائع ہو تاہم بس اتنا ہی بتانا کافی ہے کہ کرنسی کا نظام ایک ہاتھ میں رہ کر نہیں چلا کرتا۔ موجودہ نظام میں ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے اصول کے تحت کرنسی کی ترسیل طے ہوا کرتی ہے۔ عام فہمی کے لئے یہ مثال کافی ہوگی کہ امریکا جس پر کوکب نورانی کے قبیل کے افراد یہودیوں کے زیر اثر آج کا دجال گردانتے ہیں چین کی جانب سے کرنسی کے ہیر پھیر پر تقریباً رو ہی پڑے تھے۔
جہاں تک ڈاکٹرز کی جانب سے کرونا کے مریض مار کر پیسے کمانے کی بات ہے تو پھر وہ کوئی بھی کتنا ہی عزت دار شخص کیوں نہ ہو اس وقت جب ہمارے ڈاکٹرز نرسز اور دیگر پیرا میڈیکس خاص سہولیات اور حفاظتی اقدامات کے بغیر اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر کرونا کے مریضوں کے لئے لڑ رہے ہیں ، انکے بارے میں ایسے خطرناک ، نیچ اور گھٹیا دعوے کرنے کی ریاست کی جانب سے کسی کو بھی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔
مختصر یہ کہ مذہبی پیشواؤں کی جانب سے ایسی فارغ البال باتیں انکی صلاحیت اور دانش پر سے تو پردہ چاک کرتی ہی ہیں تاہم ہم سب مذہب کے ماننے والوں کے لئے یہ سوال چھوڑ جاتی ہیں کہ آیا یہ لوگ اپنی کم علمی اور موقع پر افسانوی باتیں گھڑنے کے فن کے باعث ہمیں بطور امت عمومی طور پر گمراہی کی کھائی میں تو نہیں اتار رہے اور خاص طور پر اس وبا کی صورتحال میں کہیں اجتماعی خود کشی کی طرف۔