اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے قائم مقام گورنر ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے موجودہ معاشی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے ایک پوڈ کاسٹ میں کہا ہے کہ ہم سری لنکا نہیں ہیں اور نہ ہی ہم اس کے جیسے ہیں، درحقیقت گزشتہ 2 برسوں میں 6 فیصد جی ڈی پی کی شرح نمو پوری دنیا کے لیے حیرت انگیز دھچکا ہے۔ پاکستان نہ پہلے ڈیفالٹ کیا اور نہ کرے گا
تفصیلات کے مطابق انہوں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ معیشت کو چیلنجز کا سامنا ہے اور کورونا کے بعد اشیاءکی بلند قیمتوں کی وجہ سے بہت سے ممالک کی معیشتیں مشکلات کا شکار ہیں، سری لنکا ان میں سے ایک ہے لیکن انہوں نے مناسب انتظام نہیں کیا اور کچھ غلط یا دیر سے فیصلے لیے جس سے ملک کے لیے مسائل پیدا ہوئے۔
ان کا کہنا تھا ’ پاکستان سری لنکا نہیں ہے، وہ کورونا سے بری طرح متاثر ہوا کیونکہ سیاحت سے ان کی آمدنی ختم ہوگئی، ان کی سیاحت پر مبنی معیشت چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی، 2 سال تک انہوں نے بجٹ خسارہ بڑھنے دیا جس سے کرنٹ اکاؤنٹ پر دباؤ آیا۔
ڈاکٹر مرتضیٰ سید کا کہنا تھا سری لنکا نے 2 سال تک شرح سود میں اضافہ نہیں کیا، شرح مبادلہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی، جس کا مطلب ہے کہ وہ شرح مبادلہ کو مطلوبہ سطح پر رکھنے کے لیے اپنے ذخائر استعمال کر رہے تھے، اس کے نتیجے میں کرنٹ اکاؤنٹ کا بڑا خسارہ ہوا اور ان کے زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ سری لنکا نے عوامی قرض کا انتظام نہیں کیا جو 2 سال تک بڑھتا رہا، ان کے ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہوئی، شرح سود اچانک بڑھ گئی اور معیشت بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہی، عوامی قرضہ بے قابو ہو گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا کے بعد پاکستان انتہائی محتاط رہا، اسٹیٹ بینک نے تعاون فراہم کیا جب کہ حکومت نے زیادہ محتاط اور مخصوص اہداف کے مطابق حکمت عملی اپنائی۔
قائم مقام گورنر نے کہا کہ زیادہ تر ممالک میں عوامی قرضوں میں 10 فیصد تک اضافہ ہوا لیکن پاکستان میں اس میں کمی آئی۔
انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی پر ہمارا عوامی قرض 2019 میں 77 فیصد سے کم ہو کر آج 71 فیصد ہو گیا جو کہ 6 فیصد کمی ہے۔
ڈاکٹر مرتضیٰ سید کا کہنا تھا کہ کورونا سے متاثرہ بیشتر ممالک کے مقابلے میں اشاریے بہت بہتر ہیں، ہماری ترقی کورونا سے متاثرہ معیشتوں میں سب سے بہترین تھی، یہ دنیا کے لیے ایک حیرت انگیز دھچکا تھا، ہماری معیشت تیزی سے بحال ہوئی اور گزشتہ 2 برسوں سے ترقی تقریباً 6 فیصد رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2019 میں ذخائز 7 ارب ڈالر تھے جبکہ فارورڈ بکنگ 8 ارب ڈالر تھی جس کا مطلب ہے کہ ہمارے ریزرو منفی ایک ارب ڈالر تھے۔
انہوں نے کہا کہ اب ہمارے پاس 10 ارب ڈالر کے ذخائر ہیں جبکہ فارورڈ بکنگ 4 ارب ڈالر ہے جس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس اب بھی 6 ارب ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔
انہوں نے کہا تمام اہم جہتوں میں ہم بہت بہتر پوزیشن میں ہیں، ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) پروگرام میں شامل ہیں اور وہ ہماری اصلاحات کی حمایت کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے مزید کہا کہ پاکستان اور پاکستانی پہلے کبھی ڈیفالٹ نہیں ہوئے اور نہ ہی ڈیفالٹ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے بات چیت درست سمت میں جاری ہے، ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ آئی ایم ایف تجویز کرتا ہے کہ معیشت کے لیے کیا بہتر ہے، آئی ایم ایف پاکستان کے بارے میں جو کچھ کہہ رہا ہے وہ یہ ہے کہ تیل پر سبسڈی پاکستانی معیشت کے لیے قابل برداشت نہیں کیونکہ ملک کے پاس وسائل نہیں ہیں، انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بہت قریب ہے۔
روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا کہ آمدن برقرار ہے، روزانہ آمد 80 لاکھ سے ایک کروڑ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ اسٹیٹ بینک کی ایک پروڈکٹ ہے جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو راغب کرنے کے لیے مزید منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔