Get Alerts

وفاقی کابینہ کی جانب سے لاپتہ افراد کیلئے قائم کی گئی کمیٹی کتنی موثر ہو سکتی ہے؟

وفاقی کابینہ کی جانب سے لاپتہ افراد کیلئے قائم کی گئی کمیٹی کتنی موثر ہو سکتی ہے؟
وفاقی کابینہ نے گذشتہ روز لاپتہ افراد کے مسئلے پر کام کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

وزارت داخلہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق کمیٹی انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں اور جیورسٹ کو شامل کر سکے گی جبکہ کمیٹی اپنی رپورٹ وفاقی کابینہ کو پیش کرے گی اور وزارت داخلہ کمیٹی کو سیکرٹریٹ مہیا کرے گی۔

اس کمیٹی کے چیئرمین وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ ہوں گے جبکہ دیگر ممبران میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللّٰہ خاں، وفاقی وزیر اسعد محمود، شازیہ مری، اسرار ترین، فیصل سبزواری اور آغا حسن بلوچ کمیٹی کا حصہ ہونگے۔

یہ کمیٹی کتنی موثر ہو سکتی ہے؟

ماضی میں بھی ملک میں لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کئی حکومتوں نے کوششیں کی مگر کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے عمران خان کی حکومت کے ساتھ اتحاد کرنے سے پہلے کچھ مطالبے رکھے تھے جن میں بلوچستان کے لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کرنا بھی شامل تھا۔

سردار اختر جان مینگل نے میڈیا پر کئی مواقع پر کہا کہ حکومت نے لاپتہ افراد کے مسئلے پر سنجیدہ نہیں اور نہ ہی اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوششیں کی گئی۔

لیکن دوسری جانب سابق وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کئی انٹرویوز میں کہا کہ ان کی حکومت میں بلوچستان کے سب سے زیادہ لاپتہ افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں۔

انسانی حقوق کی کارکن آمنہ مسعود جنجوعہ نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے اس سے پہلے بھی اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کوششیں کی تھی اور اس مسئلے کو سمجھنے کے لئے ہمیں ماڈل ٹاؤن بھی بلایا تھا۔ وہ کہتی ہے کہ عدالتیں احکامات دے تو دیتی ہے لیکن ان پر عمل کرنا حکومت کا کام ہے لیکن سویلین حکومت بھی اس مسئلے پر تھوڑا بے بس ہے۔ وہ کہتی ہے کہ وفاقی کابینہ نے کمیٹی تو بنادی مگر ان کو لاپتہ افراد کے حوالے سے کوئی تجربہ نہیں اس لیے ان کو انسانی حقوق کے کارکنوں اور لاپتہ افراد کے خاندان والوں کو سننا ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ حکومت اگر ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر اس مسئلے پر سنجیدگی سے کام کریں تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔

ملک میں لاپتہ افراد کے کتنے کیسز رجسٹرڈ ہیں؟

ملک میں لاپتہ افراد پر کام کرنے والے کمیشن نے جون، 2022 میں جاری کئے گئے ماہانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ سال 2011 سے 2020 کے درمیان کمیشن کے پاس لاپتہ افراد کے 8،696 کیسز موصول ہوئے ہیں جن میں 6,458 کیسز مکمل ہوچکا ہے جبکہ 2،238 کیسز زیر التواء ہے۔

مئی 2022 میں کمیشن کے اعداد شمار کیا ہے؟

کمیشن کی جانب سے جاری کئے گئے رپورٹ کے مطابق جون 2022 میں لاپتہ افراد کے 35 مزید کیسز کمیشن کے پاس درج ہوئے ہیں۔ کمیشن کے مطابق گزشتہ ماہ 30 کیسز پر پیش رفت ہوئی جن میں 17 افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹے جبکہ 5 دیگر افراد کا بھی سراغ لگایا گیا جو فوج کے زیر نگرانی حفاظتی مراکز میں قید ہے۔ گزشتہ مہینے دو لاپتہ افراد کی نعشیں ملی۔

سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ ماضی میں بھی لاپتہ افراد کے حوالے سے ایسی کمیٹیاں قائم کی گئی تھی مگر ان کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا میں کسی کو جبری طور پر لاپتہ کرنا جرم ہے اور جب تک پاکستان میں جبری گمشدگی کو جرم تصور نہیں کیا جائے گا یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ۔

سال 2021 میں کتنے لوگ لاپتہ ہوئے؟

لاپتہ افراد پر کام کرنے والے کمیشن نے سال 2021 کے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ سال 2021 میں لاپتہ افراد کے 1400 سے زیادہ نئے کیسز درج ہوچکے ہیں۔ کمیشن کے مطابق گزشتہ سال بلوچستان کے400 سے زائد لاپتہ افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں۔

جبری گمشدگیوں کو جرم بنانے کے قانون کا بل کہاں ہے؟

حکومت کی جانب سے ملک میں جبری گمشدگیوں کو جرم بنانے کا بل قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد سینیٹ سے تاحال منظور نہیں ہوا۔ سابق وزیر انسانی حقوق شیری مزاری نے کئی ٹی وی انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ جبری گمشدگیوں کا بل سینیٹ میں گم ہوگیا ہے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔