وزیراعظم عمران خان کے خلاف متوقع تحریک عدم اعتماد پر وزیراعظم نے مسلم لیگ ق کے مونس الہی کو ہنگامی بنیادوں پر میٹنگ کے لیے بلا لیا ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم مونس الہی سے مسلم لیگ ق کا تحریک عدم اعتماد پر دوٹوک جواب لیں گے ساتھ ہی ساتھ مسلم لیگ ق کے طارق بشیر چیمہ کے بیان پر بھی تفصیلات مانگی جارہی ہیں، ذرائع کے مطابق مونس الہی کے ساتھ ساتھ طارق بشیر چیمہ کو بھی میٹنگ میں مدعو کیا گیا ہے۔
وزیراعظم کی مونس الہی سے متوقع میٹنگ پر سینئر صحافی روؤف کلاسرا نے کہا کہ
'یہ وقت بھی آنا تھا۔ جس مونس الہی سے NICL سکینڈل کی لوٹ مار کے لندن بارکلے بنک سے 18 لاکھ پونڈز وصول کرا کے پاکستان لانے تھے اب ان سے حکومت بچانے کے لیے ون آن ون ملاقات ہوگی؟ اقتدار نے ایک دن جانا ہی ہے تو اتنی جنونیت کیوں؟ چوہدریوں کو سلام جنہوں نے سب کو اپنے در پر جھکا دیا۔'
https://twitter.com/KlasraRauf/status/1499320804794073089
خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر نواز شریف نے آصف زرداری، مولانا فضل الرحمٰن اور شہباز شریف کو گرین سگنل دے دیا۔
ذرائع کاکہنا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ایشو پر اپوزیشن میں ڈیڈ لاک ختم ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر اپوزیشن کے تین بڑوں میں فوری انتخابات پر اتفاق کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ پی ڈی ایم نے پیپلزپارٹی کو فوری انتخابات پر قائل کرلیا ہے۔
دوسری جانب حزبِ اختلاف نے تحریکِ عدم اعتماد کا مسودہ تیار کر لیا ہے، ذرائع نے بتایا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد پر 80 سے زائد اپوزیشن اراکین کے دستخط ہیں۔
ذرائع کے مطابق تحریکِ عدم اعتماد کے مسودے پر پیپلز پارٹی، ن لیگ، جے یو آئی، اے این پی، بی این پی مینگل اور دیگر کے دستخط ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن بھی تیار کر رکھی ہے، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے چیمبر کو اس ضمن میں الرٹ کر دیا گیا ہے۔
اپوزیشن ذرائع نے بتایا ہے کہ حزبِ اختلاف کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد اور ریکوزیشن کسی بھی وقت جمع کروائی جا سکتی ہے۔
تحریکِ عدم اعتماد کے مجوزہ مسودے میں کہا گیا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی صورتِ حال ہے، خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔
مجوزہ مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قائدِ ایوان اس ایوان کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں، اس صورتِ حال کے تناظر میں قائدِ ایوان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جاتی ہے۔