جام پور کے ضمنی انتخابات میں بھی 'جوانوں' کی پارٹی ن لیگ پِٹ گئی

جام پور کے ضمنی انتخابات میں بھی 'جوانوں' کی پارٹی ن لیگ پِٹ گئی
لیجئے! جام پور میں بھی ٹھیک ٹھاک بھاری مارجن سے مسلم لیگ ن کو شکست ہو گئی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس قدر تیزی سے سیاسی کیپیٹل کھونے کی مثال نہیں ملتی جس قدر تیزی سے نون لیگ پنجاب میں اپنا قلعہ کھوتی نظر آ رہی ہے۔ یقیناً پارٹی اس کو آبائی نشست، مہنگائی، عمرانی لہر وغیرہ کے غلاف میں دبانے کی کوشش کرے گی اور شاید کر بھی رہی ہے لیکن اس طرح 'کھسیانی بلی کھمبا نوچے' کے مصداق وہ نا صرف ہزیمت سے دوچار ہو گی بلکہ حقیقت سے منہ موڑنے کے سبب حسب معمول جماعتی خود احتسابی سے بھی بھی محروم ہو جائے گی۔

البتہ یہ ضرور ہے کہ ڈیرہ غازی خان کی سیٹ کو سردار لغاریوں اور گورچانیوں وغیرہ کے درمیان 'مقابلہ حسن' قرار دیا جا سکتا ہے کہ یہاں بھی ابھی تک بلوچستان کی طرح سردار ہی زور آور ہے، لیکن اس میں بھی زیادہ قصوروار مسلم لیگ ن کو ہی گردانا جائے گا کہ پنجاب کی راجدھانی میں عرصے تک حکمرانی کرنے کے باوجود وہ اس خطے کی 'دور درازی' نہیں کم کر سکے بلکہ ہر الیکشن میں کسی سردار کے ہی مرہون منت نظر آئے۔ کھوسے ناراض ہوئے تو انھوں نے ایک وقت میں دشمن نمبر ایک گردانے جانے والے سابق صدر فاروق لغاری کے لڑکے اویس لغاری میں 'جائے پناہ' ڈھونڈی، جس نے اپنے لڑکے کو الیکشن لڑنے 'جوگا' ہوتے ہی میدان میں 'پگ والے' کے مقابلے میں اتار دیا اور جعفر لغاری کی پگ سنبھالنے والے محسن لغاری نے سرداری چوزے کو باآسانی شکست دے دی۔ خیر عمار لغاری کی صورت میں 'بزرگوں' کی جماعت نے نوجوانوں کو چانس دینے کا بھرپور دباؤ بھی پورا کیا اور اپنے خاندانوں سے باہر نہ دیکھنے کی روایت بھی قائم رکھی۔

بہرحال قومی اور خاص طور پر پنجاب کی سطح پر اس کو تحریک انصاف کی ن لیگ کو ایک اور تسلسل والی شکست کے طور پر ہی دیکھا جا رہا ہے جس نے آخری 'جیپ والے کیل' کو بھی اکھاڑ کر رکھ دیا۔ جس طرح پنجاب کے ضمنی انتخابات میں تاریخی شکست نے دھاندلی سے لے کر خلائی مخلوق تک اور 'ووٹ کو عزت دو' سے لے کر 'پروجیکٹ عمران' کے بیانیوں کو ہوا کر دیا تھا۔ لے دے کر ایک 'تنکے' والا بیانیہ، ڈیرہ غازی خان کی حد تک، شیر کی جگہ 2018 کے انتخابات میں امیدواروں کی جیپ پر سواری تھی۔ مریم اورنگزیب کا یہ بیان کہ جب ان کا امیدوار ہی نہیں تھا، ایک مذاق اور اپنے ہی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں شکایت نامے سے منحرف ہونے کے سوا کچھ نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ نون نے جو سیاست 'پکڑ' رکھی ہے اس میں خاندانوں سے نکلنے کی کوئی صورت اور سعی نہیں ہے۔ اس 'خاندانی بزرگ' سیاست سے آج کل کے نوجوان بیزار ہیں۔ پوری جماعت میں نظر اٹھا کر دیکھ لیں تو ڈیرہ غازی خان سے لے کر ملتان تک اور ملتان سے لاہور اور لاہور سے راولپنڈی تک انہی خاندانوں کے بچے اپنے اماں ابّا کی جگہ لینے کو تیار ہیں جو کہ سالوں سے جماعت کا حصہ ہیں۔ دیہاتی اور باقی علاقوں کا تو حال چھوڑیں، بڑے بڑے 'عالمی' دانشور اور انقلابی احسن اقبال، خواجہ آصف، حنیف عباسی کے بیٹے، بیٹیاں بھی ان کی جگہ لینے کو میدان میں اتر چکے ہیں۔

عمران خان کی نوجوانوں میں مقبولیت کے پیش نظر مریم نواز کے توسط سے پارٹی کو نوجوانوں کا تادیر کچھ خیال آیا ہے لیکن جماعت میں کوئی جوان سیاست دان نظر نہیں آئے گا جو روایتی سیاسی خاندانوں سے باہر ہو اور 'غیر نوجوان' آئیں گے بھی کہاں سے۔ برس ہا برس سے جو سیاست مسلم لیگ ن کی ہے اس میں نوجوانوں کے لئے کوئی حوصلہ افزائی نہیں تھی۔ جماعت کا اندرونی سسٹم اس قدر بھیانک ہے کہ وہ رائیونڈ اور جاتی اُمرہ کے گرد ہی گھومتا ہے۔ حیرت ہے کہ سیکرٹری جنرل بنائے جانے والے احسن اقبال بھی اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہ کر سکے اور ان سے کیا امید، جب ان کا اپنا ہونہار بروا نارووال میں تیار نظر آتا ہے۔ اسی طرح سب کے ہونہار سیٹیں اور عہدے لینے کو تیار ہیں۔ اب انہی پرانے انڈوں سے جو چوزے نکالے جائیں گے تو حال اسی جام پور والی سیٹ جیسا ہی ہونا ہے۔

اپنا طرز سیاست بدلنے کے بجائے الٹا کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے نوجوانوں کو بگاڑ دیا ہے کہ پنجاب میں وہ صفر کارکردگی والے عثمان بزدار کو بھول کر 'پائیڈ پائپر' کے پیچھے چل رہے ہیں۔ ارے جب آپ نوجوانوں کو اکیلا چھوڑیں گے تو ان کو چاہے عمران خان اچک لے یا کوئی اور، آپ تو اپنی ناک سے آگے دیکھنے کو تیار نہیں۔ ابھی تو پھر بھی شکر کریں کہ عمران خان ہے جس کو کچھ خیال ہے، اگر یہی نوجوان نسل سعد رضوی یا کسی انتہا پسند کے ہاتھ پوری طرح چڑھ جائے تو ہر گلی محلے میں لوگ جلتے ہوئے نظر آئیں خدانخواستہ!

مصنف منصور ریاض ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں