ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ملک میں ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیاں فراٹے بھر رہی ہیں

ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ملک میں ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیاں فراٹے بھر رہی ہیں
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو ایک جانب تو ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہے مگر دوسری جانب اس میں لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیاں عوام کی غربت کا مذاق اڑاتی پھر رہی ہیں۔ یہ ڈیڑھ لاکھ سرکاری گاڑیاں ایندھن سے نہیں چلتیں بلکہ غریب عوام کے خون پر چلتی ہیں۔ یہ ہے آج کا پاکستان۔ سیاسی اور معاشی طور پر دیوالیہ، اپنے دانتوں کی کھال سے لٹکا ہوا، نہایت ڈھٹائی سے دنیا سے چھوٹی موٹی رقم کی بھیک مانگتا ہوا لیکن اپنی ہی اونچی شان والے، رشوت خور اور لاڈ پیار سے پالے ہوئے طبقہ اشرافیہ کو ملنے والی مراعات کو ختم کرنے پر تیار نہیں ہے۔

پاکستان میں جس بڑے پیمانے پہ لوٹ مار اور وسائل کا غلط استعمال جاری ہے اسے دیکھ کر ذہن چکرانے لگتا ہے۔ رواں سیزن میں سیاحت اور تعطیلات کے لیے شمالی علاقوں کا دورہ کرنے والی تمام کاروں میں سے 20 فیصد سرکاری سبز نمبر پلیٹس والی تھیں۔ غور سے دیکھنے پر ہمیں شاپنگ مالز، پارکوں اور ریسٹورنٹس کے باہر بھی اتنی ہی تعداد میں سرکاری گاڑیاں نظر آئیں گی۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کی ایک چھوٹی سی گلی میں پچھلے 12 سالوں سے 6 سرکاری گاڑیاں کھڑی ہیں جنہیں صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک رکن صوبائی اسمبلی کے گھر والے، دوست اور سٹاف کے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ ان گاڑیوں میں استعمال ہونے والا ایندھن، ان کی مرمت پر اٹھنے والا خرچ اور اسے چلانے والے ڈرائیورز کی تنخواہیں پاکستان کے غریب عوام کی جیبوں سے نکالی جاتی ہیں۔

برطانیہ جس نے لگ بھگ 200 سال تک ہم پر حکومت کی، وہاں محض 86 سرکاری گاڑیاں ہیں اور ان میں سے کوئی بھی گاڑی کسی خاص افسر یا نمائندے کو الاٹ نہیں کی گئی بلکہ یہ سب گاڑیاں ایک مرکزی پول میں کھڑی رہتی ہیں۔ وزیر یا بیوروکریٹ کو جب گاڑی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ پہلے یہ بتاتا ہے کہ اسے کیوں ضرورت ہے، پھر وہ ایک درخواست پر دستخط کرتا ہے اور پھر وہ یہ گاڑی استعمال کر سکتا ہے۔ استعمال کرنے کے بعد وہ دوبارہ اس فارم پر یہ تفصیل مہیا کرتا ہے کہ اس نے کتنے فاصلے کے لئے گاڑی استعمال کی اور اس دوران کتنا خرچ آیا۔ برطانیہ میں یہ بھی اصول ہے کہ کام کے لئے دفتر آنے اور کام کے بعد دفتر سے گھر جانے کے اخراجات ملازم اپنی جیب سے ادا کرے گا۔ ڈیوٹی پر پہنچنا اور ڈیوٹی کے بعد گھر واپس جانا آپ کا سرکاری فریضہ نہیں بلکہ یہ آپ کی ذاتی ذمہ داری ہے جس کا خرچ لوگ اپنی جیب سے اٹھاتے ہیں۔

27 فروری 2023 کو حکومت پاکستان نے قومی اسمبلی میں اپنے اس پاگل پن پر مبنی فیصلے کا انکشاف کیا کہ وہ 5 کروڑ 70 لاکھ روپے کی گاڑیاں خریدنے جا رہی ہے جو بظاہر 'غیر ملکی مہمانوں' کے لئے درکار ہیں۔ دسمبر 2022 میں آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نے اپنے بیوروکریٹس اور عدلیہ کے لیے 872 ملین روپے کی لاگت سے 152 گاڑیوں کی خریداری کی تصدیق کی۔ ستمبر 2022 میں پنجاب حکومت نے اپنی کابینہ کے ارکان کو بطور رشوت پیش کرنے کے لیے 40 نئی گاڑیوں جن کی لاگت 300 ملین روپے بنتی ہے، خریدنے کی منظوری دی۔ پیچھے رہ جانے کے ڈر سے مغلوب ہو کر اکتوبر 2022 میں لاہور ہائی کورٹ نے اپنے عدالتی افسران کے لئے 500 ملین روپے کی لاگت سے 308 نئی گاڑیاں خرید لیں۔

کیا پاکستان کے عوام کو اس بات کا پتہ ہے کہ ان ڈیڑھ لاکھ گاڑیوں کے باوجود صرف پچھلے چھ ماہ میں حکومت پاکستان نے اپنے پہلے سے بگڑے لونڈوں کو خوش کرنے اور ان کے عیش و آرام کے لئے 1.729 ارب روپے کی اضافی گاڑیاں خریدی ہیں۔ یہ محض مالی بدعنوانی نہیں ہے۔ یہ اپنے ہی حکمران طبقے کی جانب سے پہلے سے ڈوبتی قوم کی لوٹ مار اور آبرو ریزی ہے۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 2 سال میں وفاقی وزراء کے زیر استعمال گاڑیوں پر کل 7 کروڑ 67 لاکھ 3 ہزار 98 روپے کے اخراجات آئے۔ دو سال میں گاڑیوں کی مرمت پر 6 کروڑ 39 لاکھ 1 ہزار 278 روپے کے اخراجات آئے۔ ان دو سالوں میں گاڑیوں کے فیول کی مد میں حکومت نے 1 کروڑ 28 لاکھ 2 ہزار 720 روپے خرچ کیے۔

کیا پاکستان کے عوام اٹھ کھڑے ہوں گے اور اس فحاشی کے خاتمے کا مطالبہ کرنے پر متفق ہو جائیں گے؟ وقت آ گیا ہے کہ ہر سرکاری گاڑی کو واپس لے کر حکومت اسے فروخت کر دے اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کو پاکستان کے کمزور طبقات جیسا کہ صفائی والا عملہ یا نجی سکیورٹی گارڈز کو کم از کم طے شدہ ماہانہ اجرت مہیا کرنے پر خرچ کیا جائے۔

یہی وہ دن ہو گا جب پاکستان ہمیشہ کے لئے بدل جائے گا۔