Get Alerts

حکمران اشرافیہ کی مراعات گھٹائے بغیر پاکستان معاشی استحکام نہیں حاصل کر سکتا

حکمران اشرافیہ کی مراعات گھٹائے بغیر پاکستان معاشی استحکام نہیں حاصل کر سکتا
اتحادی حکومت کے لئے جو ملک کو رواں دواں رکھنے کے جتن کر رہی ہے، پاکستان کا معاشی بحران ایک سنگین چیلنج ثابت ہو رہا ہے۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 3 ارب ڈالر تک گر چکے ہیں، جو بمشکل 18 دن کی درآمدات کے لئے کافی ہیں۔ توقع ہے کہ عالمی مالیاتی بینک یعنی آئی ایم ایف پاکستان کے لئے ایک اور بیل آؤٹ پیکج کی منظوری دے دے گا۔ اس سے ڈالر کے لئے تڑپتی معیشت کو عارضی طور پر کچھ راحت مل سکتی ہے لیکن بیرونی قرضوں کے تیزی سے بڑھنے اور دسمبر 2023 تک 20 ارب ڈالر کی ادائیگیوں کے پیش نظر ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کی قسط بھی پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن کی صورت میں درپیش مشکلات کو قابل ذکر حد تک کم کرنے میں ناکام ثابت ہو گی۔

پارلیمنٹ نے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی لگانے کے منی بجٹ کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت اضافی ٹیکس کی مد میں 170 ارب روپے اکٹھے کیے جائیں گے۔ اس آمدنی کا بڑا حصہ سیلز ٹیکس کی قابل اطلاق شرح سے وصول کیا جائے گا جو کہ بالواسطہ ٹیکس کی ایک قسم ہے اور اسے 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کے بہاؤ کو روکنے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔

آئی ایم ایف کے اس مطالبے کو پورا کرنے کے لیے روپے کی قدر کو مارکیٹ کی قوت کے رحم و کرم پر چھوڑ کر پہلے ہی اس میں گراوٹ لائی جا چکی تھی۔ حالیہ مہینوں میں روپے کی قدر میں 30 فیصد سے زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور یہ کمی پاکستان میں مہنگائی کا ایک بڑا محرک ثابت ہو رہی ہے جس کی شرح سالانہ حساب کے مطابق جنوری 2023 میں 27.3 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔

اشیا اور خدمات کی نقل و حمل، درآمدات جن پر پیداواری شعبہ انحصار کرتا ہے اور کھانا پکانے کا تیل اور چائے جیسی ضروریات ڈالر کی قدر سے براہ راست متاثر ہوتی ہیں۔ پاکستان کی بہت سی باہر بھجوائی جانے والی مصنوعات میں باہر سے درآمد کیے جانے والے خام مال کا استعمال ہوتا ہے اور اس وجہ سے روپے کی قدر میں محض 1 فیصد کمی کا اثر بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ مالی سال 2022 میں پاکستان کی برآمدات 31 ارب ڈالر تھیں جن میں فی الوقت اضافہ نہیں ہو رہا ہے جبکہ گزشتہ سال کے دوران پاکستان کی درآمدات 80 ارب ڈالر تھیں جو اس وقت غیر مستحکم ہیں اور ان کی وجہ سے غیر ملکی زرمبادلہ میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے اور ملک کو حقیقی 'قرضوں کے جال' میں پھنساتی چلی جا رہی ہے۔

قرضوں، تجارتی خسارے اور افراط زر کے اردگرد مرکوز رکاوٹوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ادائیگیوں کے توازن کا جو بحران دکھائی دے رہا ہے وہ دراصل حکمرانی کا بحران ہے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں ہنر مند، صحت مند اور تعلیم یافتہ افرادی قوت تیار کرنے میں درکار سرمایہ کاری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس کے بجائے انہوں نے طاقتور گروہوں کی حمایت جاری رکھی، اپنے ذاتی مفادات کو تقویت دی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ٹیکس دہندگان کے ایما پر مشکوک لابیاں پھلتی پھولتی رہیں۔

1950 کی دہائی سے ترقی یافتہ دنیا کی جانب سے مہیا ہونے والے امدادی ٹیکوں نے پاکستان میں سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کی ہے۔ اشرافیہ خاص طور پر پاک فوج، سیاسی طبقے، بڑے زمینداروں اور کارپوریٹ صنعت کاروں نے ملک پر حکمرانی کی ہے اور ان طبقات نے برآمدات پر مبنی معیشت کی تشکیل کے لئے ٹیکس کے نظام کی تنظیم نو کی کوششوں اور تعلیم، سائنس اور اختراع کے میدان میں سرمایہ کاری کی ہمیشہ مزاحمت کی ہے۔ افغانستان سے امریکہ کے انخلاء اور مغرب کی فوری سکیورٹی ضرورت نہ ہونے کے باعث پاکستان کی اشرافیہ مایوسی کا شکار ہو چکی ہے اور اشرافیہ سے نیچے والے طبقات کی حالت بد سے بدتر ہو گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی 2021 کی تحقیق میں سامنے آیا تھا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی اشرافیہ ریاست سے سالانہ 17 ارب ڈالر سے زائد کی مراعات اور سہولیات کے مزے لوٹتی ہے۔ ان اعداد و شمار میں وہ سہولیات شامل ہیں جو پراپرٹی کے کاروبار سے جڑے سیٹھوں، لاڈلے صنعتی شعبے اور فوج کے کارپوریٹ اداروں سمیت دوسرے اشرافی طبقات کو دی جاتی ہیں۔ وہ مراعات جن سے یہ طبقات آج بھی مستفید ہو رہے ہیں وہ ٹیکس کی چھوٹ، کم لاگت کی پیداوار، مصنوعات کی مہنگے داموں فروخت، یا سرمائے، زمین، خدمات اور یہاں تک کہ کچھ مقامی منڈیوں تک ترجیحی رسائی کی صورت میں موجود ہیں۔ یہ مراعات 'کھیل کے اصولوں' کو لازمی طور پر غیر متعلقہ بنا دیتی ہیں جس سے پاکستان سرمایہ کاری یا اختراع کے لیے ایک غیر دلکش منزل بن کے رہ جاتا ہے۔

ریاست کی جانب سے دی جانے والی مالیاتی مراعات کا سب سے بڑا حصہ ملک کا کارپوریٹ سیکٹر لے جاتا رہا ہے جو ہر سال ایک اندازے کے مطابق 4.7 ارب ڈالر بنتے ہیں۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر مراعات وصول کرنے والے لوگ ملک کا امیر ترین 'ایک فیصد' طبقہ اشرافیہ رہا ہے جو ملک کی مجموعی آمدنی کے 9 فیصد کا مالک ہے اور جاگیردار طبقہ جو کل آبادی کا 1.1 فیصد ہے مگر تمام قابل کاشت زمین میں سے 22 فیصد کا مالک ہے۔

دولت مند زمیندار اور جاگیردار طبقے نے ہمیشہ پارلیمنٹ میں اپنی بااثر موجودگی برقرار رکھی ہے۔ زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کا انتخاب 'الیکٹ ایبلز' میں سے کرتی آئی ہیں جو عام طور پر جاگیردار اشرافیہ کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان بھر میں اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں زمین، سرمائے اور ذات پات کے نیٹ ورک کا کنٹرول انتخابی معرکوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔

فوج سے وابستہ تجارتی اداروں کو ٹیکس کی چھوٹ اور بجٹ کے بڑے حصے کے ذریعے سے دی جانے والی مالی مدد کے علاوہ پاک فوج کو حاصل مراعات میں مارکیٹوں تک ترجیحی رسائی اور رہائشی اور تجارتی مقاصد کے لئے زمینوں کی فراہمی شامل ہیں۔ پاکستان آرمی میں خدمات سرانجام دینے والے سینیئر افسران خصوصاً اور کچھ حد تک ایئر فورس اور نیوی کے حاضر سروس سینیئر افسران بھی جب اعلیٰ عہدوں تک پہنچتے ہیں تو ان کو حاصل مراعات اور سہولیات میں بے پناہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ فوجی اہلکاروں کو دوران ملازمت رہائشی پلاٹ اور کمرشل زمینیں فراہم کی جاتی ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن اور اعلیٰ کارپوریٹ عہدے ان مراعات کے علاوہ ہیں۔

جب تک پاکستان کے حکمران طبقات ریاست کی جانب سے ملنے والی مالی مراعات یعنی ٹیکسوں میں چھوٹ، سبسڈی اور رعایات سے دستبردار ہونے کے لئے رضامندی نہیں ظاہر کریں گے تب تک حکومت کے سالانہ بے تحاشہ اخراجات میں کمی واقع نہیں ہو سکے گی اور نتیجے کے طور پر ہمیشہ رہنے والا بجٹ خسارہ جوں کا توں رہے گا۔

سچ کہا جائے تو آئی ایم ایف کوئی ناجائز مطالبہ نہیں کر رہا؛ وہ محض ٹیکس کے نیٹ ورک کو وسیع کرنے اور مالیاتی خسارے کو کم کرنے کی بات کر رہا ہے۔ ماضی میں جب پاکستان کو اسی طرح کے مطالبات کا سامنا کرنا پڑا تھا تو یکے بعد دیگرے آنے والی پاکستانی حکومتوں کی جانب سے طے شدہ پالیسی ردعمل یہی آتا رہا ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں کے نفاذ میں اضافہ کر دیا جائے اور سارا بوجھ عوام، خاص طور پر غریبوں اور مقررہ آمدنی والے طبقات پر ڈال دیا جائے۔

ایک حالیہ خبر جس نے بہت سے پاکستانیوں کو صدمہ پہنچایا وہ یہ تھی کہ کس طرح فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے یکطرفہ طور پر 155 لگژری گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا تھا جن کی لاگت 1.6 ارب روپے سے زیادہ بنتی تھی۔ یہ گاڑیاں ورلڈ بینک کے اس قرض کی مد میں سے خریدی جا رہی تھیں جو ایف بی آر کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فرسودہ نظام کو بہتر بنانے کے مقصد سے حاصل کیا گیا تھا۔ صوبائی حکومتوں نے بھی درآمدی گاڑیوں جبکہ بیوروکریٹس اور سیاست دانوں کے لیے فضائی طیارے خریدنے کے احکام جاری کیے ہیں۔ یہ ڈھٹائی کے ساتھ جاری رہنے والے حکومتی اخراجات کی لمبی چوڑی فہرست میں سے محض چند ایک مثالیں ہیں جو تسلسل کے ساتھ عوامی وسائل کا رخ موڑتی چلی آ رہی ہیں۔

کئی دہائیوں تک سول ملٹری بیوروکریسی اور ان کے لیے محاذ بنانے والے سیاست دان بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈالتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ حکمت عملی تیزی سے اپنی مدت میعاد کے خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہے کیونکہ عوام پر بوجھ منتقل کرنے کی سیاسی قیمت منتخب حکومتوں کے لیے ناقابل برداشت صورت اختیار کر گئی ہے۔ موجودہ حکمران اتحاد کو خدشہ ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اس کی سیاسی طاقت کو ختم کر دے گی اور آئندہ انتخابات میں جیت کے امکانات کو محدود کر دے گی۔ لگ رہا ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔

موجودہ بحرانوں کا تریاق سب کو معلوم ہے؛ ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا اور اسے وسعت دینا، ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو متحرک کرنا جو کہ جی ڈی پی کے 15 فیصد حصے سے بھی کم ہو چکی ہے اور توانائی کے شعبے کو ٹھیک کرنا جو گردشی قرضوں میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ پاکستان کو خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری پر توجہ دینا ہو گی جن کی وجہ سے ہر سال 1 ہزار ارب روپے سے زیادہ کا خسارہ جھیلنا پڑتا ہے۔ دفاعی اخراجات کو معقول سطح تک لانے کے موضوع پر بھی کھل کر بات چیت کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔

اصلاحات متعارف کروانے اور اس طرح کے فضول خرچوں کو کم کرنے کے لیے ایک قومی پالیسی ایجنڈے کی ضرورت ہے جس میں فوج سمیت تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کی شمولیت ضروری ہے۔ بڑے سیاسی کھلاڑی یعنی پی ڈی ایم کا حکومتی اتحاد اور سابق وزیر اعظم عمران خان ایک دوسرے کو جیلوں میں ڈالنے اور سیاسی طور پر ناپید کرنے کے لیے اتاولے ہوئے جا رہے ہیں۔ 1990 کی دہائی کی سیاست ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اس طرح کا شدید سیاسی تنازعہ وہ استحکام حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوتا ہے جو پالیسی اتفاق رائے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

مختصر مدت میں طبقہ اشرافیہ کے درمیان جاری کشمکش معاملات کو مزید خراب کر رہی ہے۔ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح اور عوام میں پیدا ہوتے احساس محرومی کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر سماجی اتھل پتھل پیدا ہو سکتی ہے۔




رضا رومی کا یہ مضمون The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور کے قارئین کے لئے اردو قالب میں پیش کیا جا رہا ہے۔

مصنّف نیا دور میڈیا کے مدیرِ اعلیٰ ہیں۔ اس سے قبل وہ روزنامہ ڈیلی ٹائمز اور فرائڈے ٹائمز کے مدیر تھے۔ ایکسپریس اور کیپیٹل ٹی وی سے بھی منسلک رہ چکے ہیں۔