ڈیل ہو یا نہ ہو جمہوری بالادستی کے بیانیے کا سفر آگے بڑھتا رہے گا

ڈیل ہو یا نہ ہو جمہوری بالادستی کے بیانیے کا سفر آگے بڑھتا رہے گا
جمہوریت کا شجر قربانیوں کی آبیاری سے پروان چڑھتا اور پھلتا پھولتا ہے۔ امریکہ کی سول وار سے لے کر انگلستان کے چارٹر میگنا کارٹر تک کا سفر لاتعداد قربانیوں کے باعث ہی ممکن ہوا۔ چونکہ پاکستان میں جمہوریت کا شجر ابھی پھلا پھولا نہیں ہے اس لئے اس کی جڑیں بے حد کمزور ہیں اور اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے یہاں جمہوریت نظریات اور اصولوں کے بجائے شخصیات کی محتاج ہوتی ہے۔ اس وقت ملک میں جاری سیاسی بحران میں مزید اضافہ ہوا ہے اور نواز شریف کے ڈیل کر کے لندن جانے یا نہ جانے کی خبروں پر قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ چونکہ ہمارے یہاں سیاسی جماعتیں شخصیات کی محتاج ہوتی ہیں اور ان شخصیات کی بت پرستی ایک عام روایت ہے اس لئے نواز شریف کے ڈیل کرنے یا نہ کرنے کو جمہوریت کے مستقبل کے ضمن میں انتہائی اہم معاملہ قرار دیا جا رہا ہے۔

مسلم لیگ نواز میں سے شہباز شریف کا مفاہمتی بیانیہ نکال باہر پھینکا گیا ہے؟

مسلم لیگ نواز نے جس انداز سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی صدارت شہباز شریف سے لے کر رانا تنویر کو دی ہے اور خواجہ آصف کو پارلیمانی لیڈر نامزد کیا ہے اس سے چہ مگوئیوں میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔ شنید ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو جلد ہی نیا اپوزیشن لیڈر تعینات کر دیا جائے گا۔ اس کے دو مفہوم نکلتے ہیں۔ اوّل یہ کہ مسلم لیگ نواز میں سے شہباز شریف کا مفاہمتی بیانیہ نکال باہر پھینکا گیا ہے اور دوسرا یہ کہ نواز شریف اب شاید علاج معالجے کی خاطر لندن یاترا کریں گے۔



بطور جماعت مسلم لیگ نواز اس صورتحال سے کیسے نمٹتی ہے یہ اس کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ مسلم لیگ نواز نے مقتدر قوتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود اپنا وجود نہیں کھویا تو اس کی بنیادی وجہ نواز شریف کی جیل میں موجودگی اور مریم نواز کا جاندار سیاسی بیانیہ تھا۔ مسلم لیگ نواز میں مریم نواز کا بیانیہ اگر پروان چڑھتا رہا اور مریم نواز کو ہی مستقبل میں جانشینی ملی تو وہ اس جماعت کو آگے لے جا کر مقتدر قوتوں کو تگنی کا ناچ نچوانے کی اہلیت رکھتی ہیں۔

نواز شریف کو ملنے والی عوامی تائید اور حمایت جمہوریت سے اور جمہوری مؤقف پر ڈٹے رہنے سے مشروط ہے

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کی دوسرے درجے کی قیادت بنیادی طور پر آج بھی مقتدر قوتوں سے ہاتھ ملانے کی خواہاں ہے اور اس دوسرے درجے کی قیادت کے ذمے کارکنوں کو کسی بھی تحریک کیلئے گھر سے نکالنے کی اہم ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔ خیر یہ اس جماعت کا اندرونی مسئلہ ہے اس کا تعلق ہرگز بھی جمہوریت کی بقا یا استحکام سے جڑا ہوا نہیں ہے۔ نواز شریف کو ملنے والی عوامی تائید اور حمایت جمہوریت سے اور جمہوری مؤقف پر ڈٹے رہنے سے مشروط ہے۔ اگر نواز شریف اس راہ سے وقتی طور پر بھی پیچھے ہٹے تو یہ حمایت وہ کھو بھی سکتے ہیں۔



ویسے بھی تین مرتبہ اقتدار میں آنے اور نکالے جانے کے بعد انہیں اتنا تو معلوم ہو ہی چکا ہو گا کہ بھیک میں مانگی ہوئی حکومت سے اپوزیشن میں رہنا لاکھ درجے بہتر ہے اور موجودہ سٹیٹس کو کے تحت چاہے وہ پھر سے دو تہائی اکثریت جیت کر بھی آ جائیں بطور وزیر اعظم اپنے اختیارات کا استعمال نہیں کر پائیں گے۔ اگر ڈیل کر کے انہیں لندن یاترا ہی کرنی ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لڑائی مول ہی کیوں لی تھی؟ مزاحمتی سیاست کا مزاج نواز شریف بخوبی جانتے ہیں اور انہیں اس راہ پر چلنے سے قبل اچھی طرح سے ادراک ہو گا کہ اس راہ پر چلنے والوں کے حصے میں اقتدار کے تخت نہیں آیا کرتے۔ سٹیٹس کو کو بدلنا کوئی معمولی کام نہیں ہوا کرتا اور اس کیلئے خون دینا پڑتا ہے۔

بیانیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے قائم کرنے والوں کے اختیار میں بھی نہیں رہا کرتے

نواز شریف اور مسلم لیگ نواز رہیں یا نہ رہیں ایک بات تو طے ہے اور وہ یہ ہے کہ دھیرے دھیرے اسیر ذہنوں پر بندھی جہالت کی پٹیاں اب کھلنا شروع ہو چکی ہیں۔ آج سے ایک یا دو دہائیوں پہلے تک کس نے یہ سوچا تھا کہ پنجاب جیسے سٹیٹس کو کے حمایتی صوبے سے اسی صوبے کی ایک مرکزی جماعت اور رہنما مقتدر قوتوں کے خلاف ایک مضبوط اور توانا بیانیہ کھڑا کر دے گا۔ بیانیوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے قائم کرنے والوں کے اختیار میں بھی نہیں رہا کرتے۔ ٹھیک جیسے مقتدر قوتوں نے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے خلاف منظم پراپیگینڈہ پیدا کر کے جمہوریت سے نفرت کرنے والی ایک نسل تیار کی ہے ویسے ہی بھٹو اور اب نواز شریف نے ایک ایسی نسل بھی تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جو زبردستی مسلط کردہ بیانیوں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور جمہوریت کو ہی ملک کی بقا کا ضامن سمجھتی ہے۔ اس لئے نواز شریف کا ڈیل کرنا یا نہ کرنا جمہوریت کے پروان چڑھنے کے ضمن میں ایک بے معنی سی بات ہے۔

نواز شریف جیل گئے تو پی ٹی ایم نے خلا پورا کر دیا، مگر سوال اٹھنا نہیں رکا

نواز شریف پابند سلاسل تھے تو نواز لیگ کو چپ لگی ہوئی تھی اور اس وقت اس خلا کو پشتون تحفظ موومنٹ نے پر کیا۔ گو پشتون تحفظ موومنٹ کا انتخابی سیاست سے کچھ زیادہ لینا دینا نہیں ہے لیکن اس کے چبھتے ہوئے سوالات نے مقتدر قوتوں کے خلاف بیانئے کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سے ایک بات تو ثابت ہو گئی اور وہ یہ کہ اگر چند نوجوان ایک چھوٹے سے قصبے سے اٹھ کر اپنی تحریک کو ملک کے گلی کوچوں میں پھیلا سکتے ہیں تو پھر مرکزی سیاسی جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ نواز کیلئے بھی یہ کوئی ناممکن کام نہیں ہے لیکن اسے انجام دینے کے لئے ان جماعتوں کو  شخصیت پرستی اور وقتی فوائد حاصل کرنے کی لالچ سے دوری اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے سیاسی کارکنوں کو بااختیار بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔



عمران خان کا نمبر کب آئے گا؟

رہی بات طاقت کی بساط کی تو تحریک انصاف کا انجام لکھا جا چکا ہے۔ بجٹ کی منظوری کے بعد وزیر داخلہ برگیڈئر اعجاز شاہ جلد ہی پہلے پنجاب اور پھر مرکز میں مسلم لیگ ق جیسی جماعت تشکیل دینے میں سرگرم ہو جائیں گے۔ عثمان بزدار کی بلی چڑھا کر گجرات کے چوہدریوں کو تخت لاہور سونپے جانے کی تیاری مکمل ہو چکی ہے اور اس کے بعد اگلا نمبر محترم عمران خان صاحب کا ہو گا۔ ایسے حالات میں آصف زرداری نے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سیاسی کارڈ سب سے اچھے کھیلے ہیں اور بلاول کے ذریعے مقتدر قوتوں پر ضرب لگا کر تخلیے میں وہ دوریاں کم بھی کرتے آئے ہیں۔ لیکن جمہوریت کی بالادستی کی لڑائی کا طاقت کی بساط سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

قیادت نواز شریف کریں، مریم، بلاول یا پھر منظور پشتین، قافلہ نہیں رکے گا

طاقت کی بساط میں آئیڈیلزم نہیں ہوا کرتا جبکہ جمہوریت بذات خود ایک آئیڈیل ہے جو اصولوں اور اخلاقیات کی پابند ہوا کرتی ہے۔ پنجاب کی دھرتی سے اٹھنے والے اس جمہوری بالادستی کے بیانئے کا علم تھام کر آگے مریم نواز چلتی ہیں یا بلاول یا پھر منظور پشتین اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ کارواں چلتے رہنا چاہیے اور اس میں بتدریج نئے خون کی آمد اس کی بقا کیلئے بے حد ضروری ہے۔ اس لئے ڈیل ہو یا نہ ہو، نواز شریف پاکستان میں رہیں یا نہ رہیں، جمہوری بالادستی کے اس سفر کو اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ شخصیات آمرانہ اقداروں کی بقا کے لئے تو لازم و ملزم ہوتی ہیں لیکن جمہوریت کے کارواں کیلئے نہیں۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔