نرگِس اور راج کپور کی رومان پرور داستان، جس میں کئی نشیب و فراز آئے۔ جس میں جہاں راج کپور کا کاروباری مفاد حاوی رہا تو کبھی واقعی میں محبت، کبھی انا کی بلند دیوار دونوں کے درمیان حائل ہوتی چلی گئی، تو کبھی قربتیں، محبت کی یہ کہانی بھی بڑی عجیب تھی، جس کا جب بھی تذکرہ ہوتا ہے تو راج کپور کو بے وفائی اور ہرجائی ہونے کا طعنہ ملتا ہے۔ کئی تو یہاں تک متفق ہیں کہ کاروباری ذہنیت کے شاطر راج کپور نے نرگِس کے جذبات اور احساسات کا بھرپور فائدہ اٹھایا، اداکاری خون میں شامل تھی، اسی لئے بڑے پردے کی طرح حقیقی زندگی میں بھی عاشق ہونے کی اداکاری ایسی کی کہ نرگِس کی آنکھوں میں راج کپور کی جیون ساتھی کے سپنے جگمگانے لگے۔
جبھی انہوں نے اپنا تن من دھن سب کچھ اس عاشق پر قربان کر دیا۔ راج کپور کو صرف اور صرف اپنی فلموں کی کامیابی مقصود تھی۔ لیکن جب نرگِس ان کی زندگی سے دور چلی گئیں، تب انہیں احساس ہوا کہ کھیل ہی کھیل میں وہ واقعی نرگِس کو دل دے تو بیٹھے تھے لیکن والد اور بیوی کرشنا کے خلاف جانے کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یہ کہانی ایک ادھوری محبت کی ہی نہیں، سبق تھا اُن پیار کرنے والوں کے لئے جو محبت کو سودے بازی اور خود غرضی کے ترازو میں تولتے ہیں۔
خوبرو، پرکشش اور حسن کی تصویر نرگِس، اوس کی بوند کی طرح معصوم، شوخ و شنگ ادائیں، مسکراتیں تو جیسے دلوں میں جلترنگ بج اٹھتے۔ سکرین پر رنجیدہ ہوتیں تو ہر آنکھ اشکبار ہو جاتی۔ نرگِس کا ابتدائی تعارف تو یہ تھا کہ وہ اُس وقت کی مشہور پروڈیوسراور فلمی شخصیت جدن بائی کی صاحبزادی تھیں۔ جب کہ نرگِس، میلہ، تقدیر اور انوکھا پیار جیسی فلموں میں کام کر چکی تھیں لیکن انہیں سپر سٹار بنانے میں راج کپور کا کردار اہم رہا۔ ’آگ‘ کا کردار، نرگِس کو حسن اتفاق سے ملا تھا۔ ہوا یہ کہ بطور ڈائریکٹر راج کپور سٹوڈیو کی تلاش کے لئے جدن بائی کے گھر پہنچے۔ جہاں ان کے بجائے نرگِس نے دروازہ کھولا، چہرے پر معصومیت اور الجھے الجھے بال تھے، جنہیں انہوں نے دورانِ گفتگو ہاتھوں میں لگے بیسن سے اور خراب کر دیا۔
اس پہلی ملاقات کے ساتھ ہی راج کپور نرگِس سے پہلی نگاہ کی محبت کے اسیر بن گئے۔ سکرپٹ رائٹر اندر راج آنند سے خصوصی طور پر نرگِس کے لئے کردار لکھوایا گیا۔ جدن بائی کو راضی کیا گیا۔ فلم بنی لیکن کامیاب نہ ہوئی۔ لیکن پرتھوی راج کپور کے اس جوہر شناس بیٹے کی نگاہیں کچھ اور دیکھ رہی تھیں، جنہوں نے ’آگ‘ کے اوسط درجے کے کاروبار کے باوجود 1949 میں نرگِس کو ’برسات‘ میں شامل کیا۔ اس فلم نے جیسے ان دونوں کی زندگیوں کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا۔ اور یہی وہ مقام تھا جب نرگِس اور راج کپور کے دلوں میں پیار کے دیپ جلے۔
نرگِس اب مکمل طور پر راج کپور کے قابو میں تھیں۔ ان کی محبت میں گرفتار ہو کر وہی سب کچھ کر رہی تھیں جو وہ چاہتے تھے۔ محبت کا یہ عالم تھا کہ راج کپور کو ’برسات‘ کی عکس بندی کے لئے سرمایہ جب کم پڑا تو نرگِس نے پیار کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے ہاتھوں کی چوڑیاں تک فروخت کر ڈالیں۔ نرگِس، آر کے فلمز اینڈ سٹوڈیو کی تجوریاں بھرنے کے لئے دوسرے فلم سازوں کی فلموں میں کام کرنے لگیں۔ اور جب آر کے فلمز کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی تو اس میں نرگِس باقاعدہ شراکت دار تھیں، جنہیں بعد میں راج کپور نے دودھ میں مکھی کی طرح نکال باہر کیا۔
نرگِس کی تنہائیاں اب راج کپور دور کر رہے تھے۔ جدن بائی وفات پا چکی تھیں، جب کہ نرگِس اپنے بھائیوں اختر حسین اور انور حسین کے زیر اثر نہیں تھیں، جو انہیں بار بار یہ سمجھا رہے تھے کہ راج کپور انہیں صرف استعمال کر رہے ہیں۔ جس دن نرگِس کی قدر و منزلت میں کمی آ جائے گی، وہ نگاہیں پھیرلیں گے۔ لیکن نرگِس کسی کی بات ماننے کو تیار نہیں تھیں۔ جنہیں اس میں بھی کوئی حرج نظر نہیں آیا کہ راج کپور نے نرگِس پر کسی اور پروڈکشن ہاؤس کی فلم میں کام نہ کرنے کی شرط لگا رکھی تھی۔ اس وقت نرگِس، صرف اور صرف پیار کی وادی میں کھوئی ہوئی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں تو راج کپور کی شریک سفر بننے کے سپنے تھے لیکن راج کپور محبت کو بھول بھال کر اب نرگِس کو اپنے لئے ’بلینک چیک‘ تصور کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی ہر فلم کھڑکی توڑ کامیابی حاصل کرتی جا رہی تھی۔ ان کامیابیوں نے آر کے فلمز اینڈ سٹوڈیو کو قدم جمانے کا موقع دیا۔
بھائیوں کی مخالفت سے تنگ آ کر نرگِس بغاوت پر اتر آئی تھیں۔ یہاں تک کہ الگ گھر بھی لے لیا تھا۔ لیکن وہ چونکہ صرف آر کے فلمز کے لئے کام کر رہی تھیں، اسی لئے وہ گھنٹوں سٹوڈیو میں بیٹھی رہتیں اور انتظار ہوتا کہ کب ان کی فلم ’شری 420‘ کی عکس بندی شروع ہو۔ نرگِس کا راج کپور سے شادی کا اصرار زور پکڑنے لگا تھا۔ لیکن راج کپور قانونی پیچیدگیوں اور مصروفیات کے بہانے سے کام لینے لگے۔
یہ راج کپور کو پانے کا جنون ہی تھا کہ نرگِس اُس وقت کے بمبئی کے وزیر اعلیٰ مرار جی ڈیسائی کے پاس پہنچ گئیں جو ان دنوں ہندو میرج ایکٹ پر کام کر رہے تھے۔ نرگِس نے عجیب سا سوال یہ دریافت کیا کہ کیا کوئی ایسا طریقہ یا قانون ہے کہ شادی شدہ مرد، دوسری بار سہرے کے پھول کھلا لے۔ جس پر مرار جی ڈیسائی نے انہیں ڈانٹ کر بھگا دیا۔ اسی دوران ’شری 420‘ جب پردے کی زینت بنی تو نرگِس کو پہلی بار احساس ہوا کہ واقعی فلم میں ان کا کردار معمولی نوعیت اور گلیمر سے عاری تھا بلکہ انہیں تو یہ بھی لگا کہ ساری کہانی راج کپور کے گرد گھوم رہی ہے اور ان کا کردارجان بوجھ کر کاٹا بھی گیا ہے۔ لیکن محبت کے خاطر وہ یہ بات بھی سہہ گئیں۔
اسی دوران راج کپور کے ساتھ جب وہ سابق سوؤیت یونین گئیں تو وہاں راج کپور کا شاندار استقبال کیا گیا۔ ہر جگہ ہر تقریب میں صرف اور صرف راج کپور چھائے رہے۔ وطن واپسی پر نرگِس، زندگی کے ہی نہیں پیشہ ورانہ زندگی کے بھی بڑے فیصلے کر چکی تھیں۔ نو سال کی طویل رفاقت کا تجزیہ کیا تو انہیں جان کر زیادہ صدمہ ہوا کہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ ان کے نام پر راج کپور نے اپنا نام اور مقام بنایا اور وہ محبت کی متلاشی رہیں لیکن ابھی تک ان کا درجہ ’دوسری عورت‘ سے زیادہ نہیں بڑھا۔
یہی نہیں ان کا تو یہ بھی ماننا تھا کہ ابتدائی فلموں کے بعد اب راج کپور ایسی فلمیں تخلیق کر رہے ہیں جن کی کہانیاں ہیرو کے گرد گھومتی ہوں، نرگِس کا کردار محدود ہو کر صرف ناچ گانے تک رہ گیا ہے۔
آر کے فلمز کے علاوہ کسی اور پروڈکشن ہاؤس کی فلمیں سائن نہ کر کے انہوں نے بھیانک غلطی کی۔ اپنی پندرہ فلموں کے ہیرو کے ساتھ ان کی آخری فلم ’جاگتے رہو‘ میں ان کا کردار مہمان اداکار سے زیادہ کا نہیں تھا۔ راج کپور کو بتائے بغیر انہوں نے بھائی اختر حسین سے مدد مانگی اور دوسرے ہدایتکاروں کی فلموں میں کام کرنے کی سفارش کرائی۔ جبھی ہدایتکار محبوب خان کی ’مدر انڈیا‘ ملی۔
وہ جانتی تھیں کہ یہ 40 کی دہائی میں آنے والی فلم کا ری میک ہی ہے لیکن خود کو مصروف رکھنے کے لئے وہ اس کردارکے لئے ’ناں‘ نہ کر سکیں۔ راج کپور پر یہ خبر کسی بم کی طرح پھٹی کہ نرگِس نے ’مدر انڈیا‘ میں کام کرنے کی حامی بھرلی ہے۔ اس سے بھی زیادہ انہیں غصہ اس بات کا تھا کہ نرگِس کو جب انہوں نے راجندر سنگھ بیدی کی ’مدر انڈیا‘ سے ملتی جلتی کہانی سنائی تھی تو انہوں نے یہ کہہ کرمعذرت کر لی تھی کہ عین عروج اور جوانی میں وہ عمر رسیدہ کردار ادا نہیں کریں گی۔
اُدھر نرگِس نے مدر انڈیا کی عکس بندی کا آغاز کر دیا۔ کئی برس پہلے ’آگ‘ کے ذریعے نرگِس کی زندگی میں راج کپور آئے تھے اور ’مدر انڈیا‘ کے سیٹ پر لگنے والی آگ سے سنیل دت، جنہوں نے جان پر کھیل کر نرگِس کو شعلوں سے محفوظ رکھا۔ نرگِس کو دراز قد سنیل دت کی یہ بہادری اور جی داری جیسے بھا گئی۔ وہ دل میں کوئی فیصلہ کر چکی تھیں۔ سنیل دت صحت یاب ہوئے تو وہ اکثر تقریبات میں ان کے ساتھ نظر آنے لگیں۔
راج کپور نرگِس کے مقابلے میں قد و قامت کے اعتبار سے ذرا سے چھوٹے تھے۔ اسی لئے نرگِس جب بھی ان کے ساتھ ہوتیں تو ’اونچی ہیل کی سینڈل‘ نہیں پہنتیں، کہیں دنیا ان کا یہ مذاق نہ اڑائے کہ وہ محبوب کے مقابلے میں لمبی ہیں۔ آر کے فلمز اینڈ سٹوڈیو میں ایک کمرہ جو نرگِس کے زیر استعمال تھا اور ان کی رخصتی کے بعد ان کے سامان سمیت جوں کا توں تھا، وہیں ان کی اونچی ہیل کی سینڈل بھی رکھی تھی۔ راج کپور کو خوش فہمی تھی کہ ایک دن نرگِس ان کی زندگی میں لوٹ آئیں گی۔ لیکن وہ نہیں، ایک دن نرگِس کا ڈرائیور ضرور آیا۔
اس نے راج کپور سے نرگِس کی اونچی ہیل کی سینڈل اور ہارمونیم جب یہ کہہ کر مانگا کہ میڈم کو اس کی ضرورت ہے، تب انہیں احساس ہوا کہ نرگِس اب واقعی پرائی ہو گئی ہیں۔ ’مدر انڈیا‘ ریلیز ہوئی تو نرگِس کی اداکاری نے انہیں ایک بار پھر صف اول کی اداکارہ بنا دیا۔ 11 مارچ 1958 کو جب سنیل دت اور نرگِس شادی کے بندھن میں بندھے، سب کے ساتھ ساتھ راج کپور کے لئے بھی یہ خبر چونکا دینے والی تھی۔
مدھر جین کی کتاب ’دی کپورز‘ کے مطابق راج کپور اُس رات دیر تک روتے رہے۔ کئی روز تک مے نوشی کر کے گھر آتے اور باتھ ٹب میں لیٹ کر گھنٹوں آنسو بہاتے رہتے۔ شادی کے بعد نرگِس اور راج کپور کی ایک دو ملاقاتیں سراسر غیر رسمی نوعیت کی تھیں، جن میں سوائے ہیلو ہائے کے ایک دوسرے کی بے وفائی کا رونا نہیں رویا گیا۔
3 مئی 1981 کو کینسر سے زندگی ہارنے والی نرگِس کے جنازے میں راج کپور ضرور آئے۔ سیاہ عینک لگا کر انہوں نے سب سے اپنے آنسوؤں کی لڑیوں کو پوشیدہ رکھا۔ حسرت اور بے چارگی کے عالم میں بھرے ہجوم میں کھڑے راج کپور خود کو تنہا محسوس کر رہے تھے اور ذہن میں صرف ایک سوال تھا، کہ کیا واقعی انہوں نے محبت کو رسوا کیا ہے؟