Get Alerts

توہین نہیں، صرف توہین کی جھوٹی خبر ہی کافی ہے

توہین نہیں، صرف توہین کی جھوٹی خبر ہی کافی ہے
دنیائے کفر کے شیاطین سارے جہاں سے الگ تھلگ ایک چھوٹے سے جزیرے پر اکھٹے ہو چکے تھے۔ وقت ان کی سالانہ خفیہ میٹنگ کا تھا جس کا ایجنڈا یہ تھا کہ دنیائے اسلام کی دن دگنی رات چوگنی ترقی کے آگے کیسے بند باندھا جائے۔ اسلام ایسی قوت بن کر ابھر رہا ہے جو کسی بھی لمحے کفر کا نام صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے۔ مسلمانوں کی نت نئی ایجادات مثلاً انٹرنیٹ، کووڈ ویکسین، مریخ پر ہیلی کاپٹر اڑانا، چاند پر انسان بھیجنا، بجلی اور پانی سے چلنے والی کاریں، ایٹم بم، غوری، ابدالی میزائل، یہ سب کچھ کفار کے لئے درد سر بن چکا تھا۔ شیاطین سال بھر کی سوچ بچار کے بعد اکھٹے ہوئے تھے اور ہر ایک کے پاس اپنی عقل کے مطابق کوئی نہ کوئی حل تھا۔ شیاطین اس بات پر متفق تھے کہ تمام اسلامی ممالک اس کی لونڈی تھے۔ سوائے پاکستان نے۔ صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی ان کے لئے خطرہ تھا اور اکیلا سب دشمنوں سے زیادہ بھاری دشمن بھی۔ کسی طرح پاکستان کو نیست و نابود کر دیا جائے تو سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے گی۔

"اگر ہم محسن پاکستان کو رشوت دے کر اپنے ساتھ ملا لیں تو وہ ہمیں ایک ایسا ایٹمی بم بنا کر دے سکتا ہے جو پاکستان کے موجودہ بم سے زیادہ طاقتور ہو گا۔ ہم وہ بم پاکستان پر گرا دیں گے یا صرف دھمکی دے دیں گے۔ اور پاکستان ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے گا،" سی آئی اے کا شیطان بولا۔

"تم نرے احمق ہو۔ محسن پاکستان کو خرید بھی لیا تو کچھ نہیں ہو گا۔ پاکستان کے پاس اس سے بڑا سائنسدان مستری وقار آغا ہے جو پانی سے کاریں چلاتا ہے۔ لمحے بھر میں پانی کا بم ہم پر گرا دے گا اور ہم نیست و نابود ہو جائیں گے۔ میرے پاس اس سے بھی بہتر آئیڈیا ہے۔ ہم پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کر سکتے ہیں اگر اس کی فوجیں چین میں اس طرح گھسا دیں جس طرح امریکہ نے ہماری فوجیں افغانستان میں پھنسوا دی تھیں۔ اور اس طر ح ہمارے ٹوٹے ٹوٹے ہو گئے،" یہ تجویز کے جی بی کے شیطان کی تھی جسے ایم آئی سکس کے شیطان نے فوراً مسترد کرتے کہا: "یہ حماقت نہ کرنا۔ پاکستان کے پاس مولانا طارق جمیل ہے۔ چینیوں کو مشرف بہ اسلام کر دے گا اور پھر چین پاکستان کی کالونی بن جائے گا۔ میرا خیال ہے ہمیں بھارت کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔ ہندو مسلمان کا ازلی دشمن ہے۔ ہم نے تو دونوں پر حکومت بھی کی ہے۔ لہٰذا یہ وار زیادہ کارگر ثابت ہو گا۔"

"کس گدھے نے تمہیں ایم آئی سکس میں شیطان بھرتی کروایا۔ کرنٹ افئیرز کی ذرا خبر نہیں۔ کل ہی بادشاہ نے گدھوں اور بندروں کو افطار پر بلایا تھا اور نویدِ مسرت دی تھی کہ ہندو مسلم اب بھائی بھائی۔ وہ لوگ اب تعلقات بہتر کر رہے ہیں،" جرمنی کی بی این ڈی کا شیطان بولا۔ میرے پاس اس سے بھی بہتر حل ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اور دیگر تمام ڈونر ممالک پر دباؤ ڈالا جائے کہ پاکستان کی ایڈ بند کی جاوے۔ چند ہی دنوں میں بھوکے مر جاویں گے۔"

"یہ چول بہت پرانی ہے، صاحبو۔ یہ پاکستانی لنگر سے کھانا کھانے لگ جائیں گے۔ ملک ریاض نے بہت بڑا دستر خوان شروع کر رکھا ہے۔ ایڈ بند کرنے سے کچھ نہیں ہونا۔ اس قوم نے تو گھاس کھا کر ایٹم بم بنایا تھا۔ بھول گئے کیا؟" را کا شیطان بولا۔

"میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ تم سب سپر پاور بنے پھرتے ہو اور باتیں گدھوں کی طرح کرتے ہو۔ میں بتاتا ہوں کیا کرنا ہے،" یہ فرانس کی ڈی جی ایس ای کا شیطان تھا۔

"تم سب کے ملکوں میں کوئی اپنے ہنر کا سودا کرنے والے آرٹسٹ ہیں؟ مثلاً پینٹرز، فلم میکر، ایکٹر، شاعر، وغیرہ وغیرہ؟" فرنچ شیطان نے پوچھا۔

"بالکل ہیں۔ ایک سے ایک بڑھ کر!" سب شیطان مل کر بولے۔

"بس تو مسئلہ چٹکی بجاتے حل۔ تم سب اپنے اپنے ملک جاؤ اور اپنے اپنے پینٹرز سے کہو کہ توہین والے کارٹون بنائیں۔ فلم میکر سے کہو توہین والی فلمیں بنائیں۔ شاعروں سے کہو توہین والی شاعری کریں۔ توہین والے کپڑے جوتے بنائیں۔ اور اس کی تشہیر انٹرنیٹ پر کر دیں۔"

"ابے بےوقوف ایسا کرنے سے کیا ہو گا بھلا!" شیاطین نے فرنچ شیطان سے پوچھا تو وہ بولا:

"یہ پاکستانی ایسی جاہل قوم ہے توہین کا نام سنتے ہی آپے سے باہر ہو جائے گی۔ اپنے ہی گھر کو آگ لگانا شروع ہو جائے گی۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کیا حال کیا ملک کا ٹی ایل پی نے؟ کیسا مفلوج کر دیا؟ اور کیا فیض آباد کا دھرنا بھول گئے؟ اور بھول گئے جب انہی مسلمانوں نے امریکن ایمبیسی کو آگ لگائی تھی جب ہم نے صرف ضیا کے ذریعے ایک جھوٹی خبر پھیلائی تھی کہ کعبہ پر حملہ شاید امریکہ نے کروایا ہے۔ یقین مانو کوئی ایٹم بم، کوئی میزائل  مارنے کی ضرورت نہیں۔ صرف توہین کرو۔ یا نہ بھی کرو صرف جھوٹی خبر ہی پھیلا دو کہ توہین ہو گئی ہے۔ پھر دیکھنا کیسے یہ آپس میں ایک دوسرے کا گلا کاٹنا شروع کر تے ہیں!"

"یار تو بات تو درست کہہ رہا ہے۔ ٹھیک ہے۔ کام چالو کرتے ہیں!" شیاطین بولے اور میٹنگ برخاست!

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔