سعادت حسن منٹو اگر طارق فتح کا خاکہ لکھتے تو عنوان ہوتا؛ 'گنجا شیطان'

سعادت حسن منٹو اگر طارق فتح کا خاکہ لکھتے تو عنوان ہوتا؛ 'گنجا شیطان'
مُجھے اِس سے غرض نہیں کہ وہ اپنے نام کے ہِجے یا اِملا کیا کرتا تھا، اور اُس کے دوست احباب اُسے کِس نام سے بُلاتے تھے۔ میں اُس کے نظریات اور تعصّبات کا نہ حامی رہا ہُوں اور نہ ہی ایسا ناقد کہ اُس کے بارے میں وطن دُشمنی اور کُفر کے فتوے جاری کروں یا ایسے فتووں کی تصدیق، توثیق یا تشہیر کروں، یا اُسے کردہ، ناکردہ گُناہوں کی پاداش میں گردن زدنی قرار دُوں۔ میں طارق فتح کو (میں اُسے اِسی نام سے بُلاتا تھا) زیادہ نہیں جانتا، لیکن جتنا تھوڑا بُہت جانتا ہُوں یہ ہے کہ، اُس زمانے میں جب میں اُسے جانتا تھا، وہ مُنافق نہیں تھا، اپنی باتوں میں تو بِالکُل نہیں، اور شاید اپنے عمل میں بھی نہیں (جسے طارق کے مُخالف بڑی آسانی سے اُس کے کرتُوت کہہ سکتے ہیں)۔

میں اور طارق فتح کسی ٹیلی ویژن سنٹر پہ کبھی اکٹھے نہیں رہے، اور نہ ہی ہم دونوں کو کبھی اکٹھے کام کرنے کا موقع مِلا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی مُلازمت کے دوران اُس سے میرا رابطہ فون کی حد تک ہی رہا۔ وہ بھی اِس طرح کہ راولپنڈی اسلام آباد سنٹر کے نیُوز ایڈیٹر کی حیثیت سے مُجھے (ڈائریکٹر نیُوز زُبیر علی صاحب کی طرف سے) کبھی کوئی ہدایات کراچی سنٹر کو پُہنچانا ہوتیں اور حبیب اللہ فارُوقی یا عظیمُ الشّان حیدر کراچی نیُوز رُوم میں دستیاب نہ ہوتے تو طارق فتح سے بات ہو جاتی تھی۔ تاہم اُس کی عمُومی شُہرت سے میں آگاہ تھا کہ طارق ایک کھوجی (investigative) رپورٹر اور کِتاب شتاب پڑھنے والا نوجوان ہے، لیکن جھگڑالُو بُہت ہے۔ اُس کے یار بیلی تو اُسے “تارک پھَڈّا” کہتے تھے۔ مُجھے لگتا تھا کہ اُس کے یار دوست اُس سے محبت کم، حسد زیادہ کرتے ہیں، اور اُس کے سینئرز اُس سے نالاں اور شاکی بھی رہتے ہیں اور کُچھ ڈرتے بھی ہیں۔

طارق فتح بات وات کرنے میں بُہت کھُلّا ڈُلّا، اور اپنا نُقطۂ نظر بیان کرنے میں بُہت بے باک بلکہ بے دید تھا اور اِس مُعاملے میں کِسی رکھّ رکھاؤ، مُنہ مُلاحظے اور دِید لحاظ کا قائل نہیں تھا۔ جو مُنہ میں آتا تھا کہہ دیتا تھا۔ خاصا مُنہ پھَٹ تھا اور اُس کے اکثر ساتھی اور نام نہاد دانشور اُس کے مُنہ لگنے سے گُریز کرتے تھے۔

اِسے حُسنِ اِتّفاق کہیے، وقت کی سِتم ظریفی سمجھیے یا اِشتراکی لُغت کے مُطابق تاریخ کا جبر، کہ طارق فتح سے میری چند تفصیلی مُلاقاتیں حجازِ مُقدّس میں ہُوئیں جہاں کشاکشِ روزگار اُسے لے گئی تھی، اور جہاں میرا بھی اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی کے لئے آنا جانا ہوتا تھا۔ یہ 1970 کے عشرے کے اواخر اور 1980 کے عشرے کے اوائل کی باتیں ہیں۔ عبدُالحمید عدم ہوتے تو کہتے کہ یہ مُلاقاتیں تو اُسی ڈھَب کی ہوں گی جیسے خانۂ خُدا میں رِندِ خرابات کی واعظ سے یا میکدے میں زاہدِ خُشک کی پِیرِ مُغاں سے مُلاقات۔ اُس دور میں طارق فتح کا ایک بِالکُل ہی الگ رُوپ تھا۔ وہ جَدّے کی ایک تشہیری فَرم میں مُلازمت کرتا تھا۔ کبھی کبھی جَدّے میں رہنے والے پاکستانیوں سے اُس کا میل مِلاپ ہوتا تھا، اور مہینے دو مہینے میں وہ ایک آدھ بار عُمرہ بھی کر آتا تھا۔ میرا سعُودی عرب جانا ہوتا تو طارق کو پاکستانی سِفارتی مِشن سے اِطلاع ہو جاتی اور وہ ضرُور مُلاقات کرتا، کُچھ مُشترکہ دُوستوں سے مِلواتا اور کھانا کھِلانے پہ اِصرار کرتا۔ ایسی مُلاقاتوں میں دُنیا بھر کی باتیں ہوتیں، پاکستان کے سیاسی اور سماجی حالات، عالمی واقعات اور کُچھ کِتابوں کی باتیں۔

بعض اوقات، کِسی خاص رَو میں، وہ عُمرے کی ادائیگی کے دوران حرم شریف میں اپنی کیفیات کا ذکر بھی کرتا۔ باتیں ہلکی پھُلکی ہوتیں، اور کبھی اُن حالات کی تلخی اُس کے لہجے میں دَر نہ آتی جن کی وجہ سے اُسے پاکستان سے نِکلنا پڑا تھا۔ تب اُس کی زندہ دِلی اور شگُفتہ مِزاجی برقرار تھی۔ اُس نے مُجھ سے کبھی حالات کا شکوہ نہیں کیا۔ دو، تین بار تو جَدّے سے وطن واپسی کے لئے طارق مُجھے اپنی گاڑی میں ہوائی اڈے بھی لے گیا۔ ایسا ہی ایک موقع 1981 میں ہمارے سفرِ حج کا بھی تھا۔ مکہ مُعظّمہ سے واپسی پر میں، میری اہلیہ اور میری بیٹی۔ ہم جَدّے میں پاکستانی سفارت خانے کے پریس قونصلر مُبارک شاہ کے گھر پہ ٹھہرے تھے۔ مُبارک شاہ سے (جو بعد میں وزارتِ اِطلاعات کے ایڈیشنل سیکریٹری ہُوئے) میرا برسوں کا تعلق تھا۔ طارق کو پتا چلا تو ہمیں مِلنے چلا آیا۔ ہمیں ہوائی اڈّے پُہنچانے کے لئے مُبارک شاہ نے گاڑی کا انتظام کر رکھّا تھا، لیکن طارق نے بڑے خُلُوص کے ساتھ اِصرار کیا بلکہ ضِدّ کی، کہ وُہی ہمیں ائیرپورٹ لے جائے گا۔ اُس نے اپنی گاڑی میں ہم تین سواریوں کے علاوہ ہمارے چھ ، سات بَکسے (boxes) بھی بڑی محنت سے لادے اور خُوش دِلی سے باتیں کرتا ہوا ہمیں ہوائی اَڈے لے گیا۔ تب وہ سعُودی عرب سے کِسی انجانی منزل کی جانب اُڑان بھَرنے کی سوچ رہا تھا۔

مُجھے جَدّے میں طارق سے ایک اور مُلاقات یاد آئی۔ غالباً 1978 کی بات ہے، فِلم “دی میسیج” (The Message) کُچھ ہی عرصہ پہلے ریلیز ہُوئی تھی، اور اُس کا بُہت شُہرہ تھا۔ میں نے تب تک یہ فِلم نہیں دیکھی تھی۔ طارق کُچھ دِن پہلے یہ فِلم دیکھ چُکا تھا اور فِلم کے تکنیکی پہلُوؤں سے بُہت مُتاثّر ہوا تھا۔ وہ خاصی دیر تک اُس فلم کی اثرانگیزی (impact)، سکرپٹ، اداکاروں کی پرفارمنس، اور پروڈکشن کوالٹی کی باتیں کرتا رہا۔ اِسلام کے موضُوع پر بننے  والی یہ فِلم روایتی مذہبی حلقوں میں تنقید کا نشانہ بھی بنی تھی۔ ہماری گُفتگُو میں یہ پہلُو بھی زیرِبحث آیا۔ طارق فِلم کی افادیت کا دِفاع کرتے ہُوئے اچانک ایک لمحے کو رُکا، اور پھِر بولا: “سَر جی! ایک بات تو ہے کہ اب اگر حضرت امیر حمزہ (رضی اللّہُ عَنہُ) کا ذِکر آ جائے، تو کھَٹ سے انتھونی کوئن (Anthony Quinn) میری آنکھوں کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے”۔ انتھونی کوئن نے اِس فلم میں حضرت حمزہ رضی اللّہُ عَنہُ کا کردار ادا کیا تھا۔

طارق فتح کی باتیں ایسی ہی ہوتی تھیں: کھَٹّی مِیٹھی، کبھی شِیریں، کبھی تَلخ تُرش، اکثر کڑوی کسیلی، اور بعض اوقات زہر آلُود۔

سعُودی عرب سے کینیڈا مُنتقل ہونا طارق فتح کا دُوسرا جنم تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اِس نئے جنم میں طارق، “تارک” بن گیا جس کا خمِیر جہالت اور تَعصّبات کی تاریکیوں سے اُٹھا تھا۔ اب طارق فتح “تارک فتے” بن چُکا تھا۔ کینیڈا کے ساحل پہ اُترتے ہی طارق نے اپنی پُرانی کشتیاں جَلا دیں۔ بحرِ اوقیانوس پہ آخری نظر ڈالی اور کمرِ ہمّت کَس کے نئی منزل کی جانب گامزن ہوا۔ اُس نے اپنے ماضی سے، اپنی روایات سے، اور اپنے تہذیبی ورثے سے کٹ جانے کا فیصلہ کیا۔اور موسمِ سرما میں سائبیریا سے نقلِ مکانی کرنے والے پرندوں کی طرح نئے سبزہ زاروں میں دانہ دُنکا چُگنے کے لئے اپنے پَر پھیلا دیئے۔ اُسے جلد ہی نئے آشیاں مِل گئے، ایسے آشیاں جو، بقول شخصے، اِسرائیل اور بھارت کی ایجنسیوں نے بڑی محنت سے، تِنکہ تِنکہ چُن کر بنائے تھے۔ یہ آشیاں طارق کو خُوب راس آئے۔ اُس کے ہدَف ہی نہیں بَدلے، اُس کی حِکمتِ عملی اور اُس کا اندازِ نظر بھی تبدیل ہو گئے۔ اُس کی زبان، لہجہ اور بَدن بولی، تینوں بَدل گئے۔ اب وہ تلمُود اور اُپنِیشَد کے لِسانی پیرائے میں بات کرنے لگا۔ زبان کا وہ پہلے بھی تیز تھا۔ وہ لب کھولتا تو زہر اُبلنے لگتا۔ ماضی میں مِلنے والے تمام دُکھوں کی تلخی زہر بن کے اُس کے لبوں سے اُبلنے لگی۔ اُس کی آنکھیں شعلے اُگلتیں، اُس کے ہر اِشارے کنائے سے، چشم و اَبرُو کی ہر جُنبش سے، اُس کے ہاتھوں کی ہر حرکت سے، اور اُس کے ہر جُملے اور ہر لفظ سے زہر ٹپکتا۔ اُس کے زہر میں بُجھے ہُوئے تیروں کا نشانہ پاکستانی عوام تھے۔

مُجھے نہیں پتہ کہ کینیڈا میں طارق اپنا شُمار مسلمانوں میں کراتا تھا یا نہیں لیکن میرا گُمان ہے کہ وہ خُود کو مذہب اور قومیّت کی شناخت سے بالاتر  سمجھتا تھا۔ اُس کے نزدیک مذہب کی اپنی ہی تعبیر تھی اور اَخلاقی قَدروں کے اُس کے اپنے ہی معیار تھے۔نئے آشیاں سے پروں کو گرمائش مُیَسّر آئی تو اُس نے اُونچی اُڑان کے لئے جنُوبی ایشیا کی ایسی کھُلی فضاؤں کا رُخ کیا جہاں پرواز کے لئے ہوا سازگار تھی۔ بھارت میں اُسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ جَنُونی ہندُو اِنتہا پسندوں نے اُس کا مُنہہ سر چُوما، اُس کی دامے، دِرمے، سُخنے مَدد کی گئی اور اُس کی ہَفوات نشر کرنے کے لئے ہر مُمکن پلیٹ فارم مُہیّا کیا گیا۔

مُسلمانوں کی تضحیک، تحریکِ پاکستان کے بارے میں ہرزہ سرائی، بھارت ماتا کی عَظمَت کے گُن گانا، گنگا جمنی تہذیب کا مذاق اُڑانا، پاکستانی قومیّتوں میں تفریق اور اِنتشار کے بیج بونا، نفرتوں کو ہوا دینا، اور آزادی فِکر کے نام پہ نوجوانوں کے ذہن آلُودہ کرنا تارک فتے کی خُود ساختہ دانشوری کا حصّہ تھے۔ پاکستانیوں کے احساسات اُس کے زہر میں ڈُوبے تیروں کا نشانہ بنتے تھے اور بعض اوقات اُس کی دریدہ دہنی شائستگی کی تمام حدیں پامال کر جاتی تھی۔

یہ طارق فتح کا خاکہ نہیں، کُچھ یادیں، کُچھ تاثرات ہیں۔ میں اُس کا خاکہ لِکھ بھی کیسے سکتا ہُوں۔ کوئی سعادت حسن منٹو ہوتا جو اُس کا خاکہ لکھتا اور عُنوان رکھتا: “گنجا شیطان” یا تارک فتے کی عصمت چُغتائی جیسی کوئی بہن ہوتی جو اٗس کا خاکہ لکھتی اور عُنوان رکھتی: “ایک اور دوزخی”۔