کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی جمہوری، سیاسی و آئینی تاریخ میں ایک اہم اور سنہرا باب سینیٹ الیکشن 2021 کے نام سے شامل ہو گیا ہے کہ تمام تر خدشات، خطرات اور امکانات کے باوجود دھونس و دھاندلی کے خلاف کھڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ انتخابات میں فتح ہو گئی۔ یوسف رضا گیلانی کی جیت کا روشن پہلو یہ ہے کہ ان کی جیت سے یہ تاثر بظاہر ابھرا ہے کہ ملک میں غیر جمہوری قوتیں باامر مجبوری ہی سہی مگر انتخابات میں دخل اندازی کی روش سے پرہیز برت رہی ہیں۔ حتیٰ کہ خود پی ڈی ایم کی قیادت ایک رات قبل اس حوالے سے تشکیک کا شکار تھی۔
مریم نواز بھی شکوک و شبہات کا اظہار کرتی رہیں۔ اور تو اور زرداری صاحب نے تو آج بھی صحافی کے سوال پر کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اپنا کھیل کب نہیں کھیلتی؟ پھر بلاول کا بیان کہ اگر ان کے اعلانیہ ووٹوں سے ایک ووٹ بھی اوپر ملا تو وہ اسے اپنی جیت سمجھیں گے۔ یہ سب اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ پی ڈی ایم قیادت کو اس حوالے سے شک تھا کہ انہیں ایک سیاسی میدان ملے گا جس میں کسی قسم کی ادارہ جاتی رکاوٹیں نہ ہوں گی۔
بہر کیف الیکشن ہوا۔ الیکشن کے ہنگام معلوم پڑا کہ وزرا کو بھی سینیٹ کے الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی ٹریننگ حاصل نہیں اور تو اور اب وزیر اعظم پر بھی ووٹ ضائع کرنے کا الزام لگ رہا ہے البتہ اس کی تصدیق نہیں کی جا سکی۔ الیکشن کے نتائج بہت دلچسپ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف برانڈڈ حفیظ شیخ باہر ہوئے ہیں تو یوسف رضا گیلانی کی فتح ہوئی ہے حتیٰ کہ مجموعی طور پر سینیٹ میں اپوزیشن کے نمبرز حکومت سے زیادہ ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو 17 کے قریب تحریک انصاف کے ووٹ پی ڈی ایم کے جھرلو کی نظر ہوئے جب کہ 5 ووٹ حکومت بھی اپوزیشن سے لے اڑی۔ مجموعی طور پر اپوزیشن بھاری نظر آرہی ہے۔
مگر کیا واقعی یہ جمہوریت کی فتح ہے؟ الیکشن سے ایک رات قبل کی علی حیدر گیلانی کی ویڈیو نے کم از کم ایک بات تو واضح کر دی ہے کہ یہاں سب کچھ شفاف نہیں۔ ایک اور آڈیو کال کی ریکارڈنگ بھی منظرِ عام پر آئی جس میں سندھ کے ایک سینیئر وزیر ناصر حسین شاہ مبینہ طور پر کچھ رقم کی لین دین کی بات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے یہ آواز ان کی نہیں۔ مان لیجئے نہیں تھی۔ علی حیدر گیلانی کی ویڈیو بھی نہ آتی تو یہ بات کسی سے چھپی نہیں کہ سینیٹ کے الیکشن میں بے دریغ پیسہ بہایا جاتا ہے۔ اور اس الیکشن میں بھی ایسا ممکن ہے۔ الیکشن کمیشن کو ہر صورت اس کا تدارک سختی سے کرنا چاہیے۔ کیونکہ سینیٹ ہاؤس آف فیڈریشن ہے۔ یہ ہاؤس آف ATMs نہیں بننا چاہیے۔
مثلاً اب اس امر کی جانب کون توجہ دے کہ جس قسم کی تقریبِ پیسہ بہائی حکومتی فنڈز کی صورت میں وقوع پذیر ہوتی ہے وہ کس کھاتے میں جائے گی؟ کیونکہ دیکھا گیا کہ کس طرح خان صاحب نے الیکشن سے قبل حکومتی اراکین اسمبلی میں کروڑوں کے فنڈز بانٹے لیکن کسی نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ بلکہ ایک جج نے لیا تو اس بیچارے کے اپنے خلاف ہی فیصلہ آ گیا۔ آج کل ایک اور کیس میں اپنی وکالت خود کرتا پھر رہا ہے۔ یہاں کے حالات ہی ایسے ہیں۔ اور اب بھی لگ یوں ہی رہا ہے کہ بہت زیادہ خرچے کے باوجو نتائج حکومتی کیمپ کے لئے ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کی اس جیت نے ایسا زلزلہ پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے حکومتی ایوانوں میں سیاسی تھرتھراہٹ واضح نظر آ رہی ہے اور وزیر اعظم کا اچانک کرسی سے اٹھ کر اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان بھی اسی بات کا غماز ہے۔
یہ سلسلہ کڑی در کڑی چل پڑے گا۔ سمجھوتہ در سمجھوتہ یہ حکومت جو کہ طاقتور ترین دنوں میں کچھ نہ کر سکی اب مزید غیر فعال اور اس کے لانے والوں کے لئے نرا بوجھ بن کر رہ جائے گی جس سے چھٹکارہ پانے میں ہی سسٹم عافیت پانے گا۔ اور شاید یہی اس ملک میں جمہوری صبح نو کی پہلی کرن ہو۔ گو کہ ابھی اس پیش رفت کی حیثیت صرف اتنی ہی ہو کہ نظام میں غیر جمہوری رجحانات کو ٹھونسنے کی کوشش کو فی الوقت دھچکہ لگا ہے لیکن یہ ایک ایسے جمہوری دور کی داغ بیل ڈال سکتا ہے جو صبح نو کی طرح عوام کا خواب ہو۔ اس خواب کی تعبیر ابھی نظروں سے کوسوں دور ہے۔ اور یوں بھی جو پیسہ چلاتے ہیں، وہ اپنا مفاد دیکھتے ہیں، عوام کا نہیں۔ اس کے لئے عوام کو خود جاگنا ہوگا اور چوکنا رہنا ہوگا تاکہ مستقبل میں کوئی ان کے حق پر ڈاکہ نہ ڈال سکے۔