Get Alerts

تعلیمی اداروں میں ہم نصابی سرگرمیوں کی راہ میں سماجی اقدار حائل ہیں

سماجی اصول اور قدامت پسند اقدار ہم نصابی سرگرمیوں میں طالب علموں کی شرکت کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہیں۔ کلاس روم سے باہر کی سرگرمیوں میں بچوں خصوصاً طالبات کی شمولیت کو والدین سے زیادہ دیگر رشتہ داروں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تعلیمی اداروں میں ہم نصابی سرگرمیوں کی راہ میں سماجی اقدار حائل ہیں

تعلیمی اداروں میں طلبہ اور طالبات کا غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا ان میں خود اعتمادی پیدا کرتا ہے مگر ہم جس سوسائٹی کا حصہ ہیں اس میں اس فعل کو بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جب بات خواتین کے تعلیمی اداروں میں اس قسم کے پروگراموں سے متعلق کی جاتی ہے تو لوگ ہزار طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ آج کے دور میں لوگ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے طالبات پھر اُن پروگراموں سے دور رہتی ہیں۔ دوسری جانب آج کے تعلیمی اداروں میں اگر دیکھا جائے تو طلبہ میں خود اعتمادی کا فقدان نظر آتا ہے۔ وہ اپنے کلاس فیلو کے سامنے بھی بات نہیں کر سکتے، اوروں کے سامنے تو دور کی بات ہے۔ خود اعتمادی کی یہی کمی انہیں ملازمتوں سے دور رکھتی ہے۔

پاکستانی تعلیم کے متحرک منظرنامے میں یونیورسٹیوں میں غیر نصابی سرگرمیوں کی اہمیت پر ہمیشہ بات کی جاتی ہے اور اس کے لئے محکمے تعلیمی اداروں کو وقتاً فوقتاً اعلامیے جاری کرتے ہیں کہ وہ اپنے تعلیمی اداروں میں ایسے پروگراموں کا انعقاد کریں جن میں طلبہ کی موجودگی لازمی ہو۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے اس بارے میں بہت چوکس ہیں۔ وہ اس کے لئے مخصوص بجٹ رکھتے ہیں اور پھر دیگر تعلیمی اداروں کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ وہ بھی اس میں حصہ لیں۔ ہر سال مارچ کے مہینے میں جب نتائج کا اعلان کیا جاتا ہے تو طلبہ اور طالبات کو پروگراموں میں حصہ لینے کے لیے کہا جاتا ہے جس میں بولڈ طلبہ حصہ لیتے ہیں اور باقی صرف تالیاں بجاتے ہیں۔

یونیورسٹیوں میں فروری یا مارچ کے مہینے میں موسم بہار کی آمد کے سلسلے میں پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں طلبہ حصہ لیتے ہیں۔ اس سال سوشل میڈیا پر دو ویڈیوز بہت وائرل ہوئیں جن میں ایک نجی میڈیکل کالج کے طلبہ کا فرعون کا گیٹ اپ اور ایک سرکاری یونیورسٹی کے طلبہ کا عیسائی گیٹ اپ زیر موضوع رہا۔ ان پر سوشل میڈیا کے ناقدین نے اپنے تنقید کے تیر برسائے اور ادارے سمیت طلبہ کو آڑے ہاتھوں لیا جس میں ایسی کوئی غلط بات نہیں تھی۔ وہ صرف پرانے دور کی ثقافت کو پیش کر رہے تھے مگر لوگوں کا کام ہی بات کرنا ہوتا ہے جس سے ان کو روکا بھی نہیں جا سکتا۔

روایتی طور پر یونیورسٹیوں کو صرف اور صرف تعلیمی سرگرمیوں کے لیے وقف اداروں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کچھ لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ غیر نصابی سرگرمیوں کی طرف توجہ دینے سے اعلیٰ تعلیم کے بنیادی مقصد کو نقصان پہنچتا ہے۔ مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیاں تفریحی سرگرمیوں یا تفریحی پروگراموں کے پلیٹ فارم نہیں ہیں۔ وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ اس طرح کی سرگرمیاں تعلیمی کوششوں کی سنجیدگی کو کم کرتی ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

مزید براں سماجی اصول اور قدامت پسند اقدار ان سرگرمیوں میں طالب علموں کی شرکت کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہیں، خاص طور پر جب بات طالبات کی ہو۔ اگرچہ خاندان تعلیمی کامیابیوں کی حمایت کرتے ہیں، مگر کلاس روم سے باہر کے واقعات میں ان کی بیٹیوں کی شمولیت کو رشتہ داروں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ شمولیت خواتین کے لیے نامناسب سمجھی جاتی ہے۔

اس کے برعکس یونیورسٹیوں میں غیر نصابی سرگرمیوں کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ تقریبات ناصرف ذاتی ترقی کے لیے ضروری ہیں بلکہ اچھے افراد کی تعمیر میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سخت تعلیمی نظام الاوقات اکثر طلبہ میں تناؤ اور جلن کا باعث بنتے ہیں۔ تفریح کے مواقع فراہم کرنا، جیسے کہ کھیلوں کے گالا اور فوڈ فیسٹیول طلبہ و طالبات کے درمیان برادری اور ہمدردی کا احساس بڑھاتا ہے۔

نجی شعبے کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں غیر نصابی سرگرمیوں پر خاصا زور دیا جاتا ہے، جو ان تقریبات کے لیے کافی وقت اور وسائل وقف کرتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر، سرکاری شعبے کے اداروں میں تعلیمی نتائج اکثر ان کے نجی ہم منصبوں سے آگے نکل جاتے ہیں، جو اس تصور کو چیلنج کرتے ہیں کہ صرف ماہرین تعلیم پر سخت توجہ کامیابی کی ضمانت دیتی ہے۔

اس طرح کی سرگرمیوں کی مخالفت کرنے والوں کا تنگ نظری کا نظریہ تعلیم کی کثیر جہتی نوعیت کو تسلیم کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ یونیورسٹیوں کو سیکھنے کے مراکز کے طور پر ناصرف علم فراہم کرنا چاہیے بلکہ طلبہ کو ایسے ہنر اور تجربات سے بھی آراستہ کرنا چاہیے جو نصابی کتب سے بالاتر ہوں۔ طلبہ خود یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ مل کر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان سرگرمیوں میں ان کی شرکت معاشرتی اصولوں کے لیے نقصان دہ نہیں ہے۔ اس کے بجائے یہ ان کی بات چیت کرنے، تعاون کرنے اور مؤثر طریقے سے اظہار خیال کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتا ہے۔

ناقدین کی طرف سے اٹھائے گئے خدشات کو دور کرنا اور تعلیمی سختی اور طلبہ کی مجموعی ترقی کے درمیان توازن قائم کرنا بہت ضروری ہے۔ یونیورسٹیوں کو ایسے ماحول کو فروغ دینا جاری رکھنا چاہیے جہاں غیر نصابی سرگرمیاں ان سے محروم ہونے کے بجائے تعلیمی حصول کی تکمیل کرتی ہوں۔ ایسا کرنے سے وہ ایسے گریجویٹ پیدا کر سکتے ہیں جو ناصرف تعلیمی لحاظ سے ماہر ہوں بلکہ سماجی طور پر بھی ماہر ہوں اور معاشرے میں بامعنی حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہوں۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں میڈیا سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔