جانےدیں سہیل وڑائچ صاحب! یہی کمپنی ہی تو چلے گی۔

جانےدیں سہیل وڑائچ صاحب! یہی کمپنی ہی تو چلے گی۔
پچھلے دنوں سہیل وڑائچ صاحب کی کتاب "یہ کمپنی نہیں چلے گی" اپنی اشاعت سے غائبانہ نماز جنازہ تک سوشل میڈیا پر کافی زیربحث رہی۔ سہیل وڑائچ صاحب کی اس کتاب میں نہیں معلوم اندرونی صفحات پرکیا کچھ لکھا تھا لیکن اس کتاب کا عنوان اور بیرونی سطح پر بنی تصویر ایک خاص جمہوریت پسند بیانیے کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ میری نظر میں اس کتاب کا غائب ہونا بنتا ہی تھا کیونکہ اس کتاب کا عنوان ہی جھوٹ پر مبنی تھا۔ جس کمپنی کہ نہ چلنے کی بات وہ کر رہے ہیں ایک وہی کمپنی تو ستر سال سے چل رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے ہر چند سال بعد یہ کمپنی ایک نیا ماڈل پیش کردیتی ہے جسے عوام ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ کبھی کمپنی پرانے ماڈل میں صرف اسٹیکرز اور پیکنگ تبدیل کرکے پرانے ماڈل کو نئے ماڈل کے طور پیش کردیتی اور کبھی بلکل ہی نئے قسم کا ماڈل مارکیٹ میں لے آتی ہے۔

ظاہر سی بات ہے جب بلکل نئے قسم کا ماڈل بنانا ہو تو اس میں محنت بھی زیادہ کرنا پڑتی اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بلکل نئے ماڈل کی تیاری کے لئے پرانے ماڈل میں کچھ ایسی تبدیلیاں کردی جاتی ہیں جنہیں عوام پسند نہیں کرتے۔ بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کچھ کمپنیز پرانے ماڈلز کو بنانا مکمل طور پر بند کردیتی ہیں تاکہ نیا ماڈل جیسا بھی ہو لیکن ہوتا وہ نیا ہے لہذا عوام اسے خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں پھر بھی اگر نیا ماڈل عوام میں مقبولیت نہ حاصل کرسکے تو بڑے بڑے اداروں اور لوگوں کو اس ماڈل کو خریدنے پر خاص رعایت دی جاتی ہے۔

تاکہ ان کی دیکھا دیکھی عوام بھی اس ماڈل کو خریدنے پر مجبور ہوجائیں اکر پھر بھی کسی مینو فیکچرنگ فالٹ کی وجہ سے نیا ماڈل فیل ہوجائے اور عوام میں مقبولیت حاصل نہ کرسکے تو اگلے سال عوام میں مقبول پرانے ماڈل سے ملتا جلتا نیا ماڈل پیش کردیا جاتا ہے تاکہ کمپنی کی سیل متاثر نہ ہو اور روزگار چلتا رہے اس طرح کمپنی چلتی رہتی ہے کمپنی کبھی بند نہیں ہوتی ہاں البتہ ماڈلز تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

بد قسمتی سے ملکی نظام کو بھی اسی کمپنی کے نظام کے تحت چلایا جارہا ہے اب نیا ماڈل فیل ہوگیا ہے تو پہلی کوشش یہ ہورہی ہے کہ پرانے ماڈلز کو مکمل طور پر بند کردیا جائے لیکن مسئلہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ پرانے ماڈل میں جو غیر ضروری تبدیلیاں کرکے نیاماڈل تیار کیا گیا ہے اس کی قیمت خرید اتنی زیادہ ہے کہ عوام اسے خریدنے کی قیمت ادا نہیں کر سکتی۔ لیکن عوام کو کمپنی یہ کہہ کر مجبور کر رہی ہے کہ پرانے ماڈلز کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے لہذا آئندہ آپ کو جو بھی ماڈل ملے گا وہ اسی قیمت یا اس سے بھی زیادہ قیمت پر ملے گا۔

یہ سن کر عوام کا کچھ حصہ احتجاج پر نکل کھڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے کمپنی کی سیل میں نمیاں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے لیکن اس کے باوجود کمپنی اپنے موقف پر بظاہر قائم نظر آتی ہے لیکن اندر کی خبر یہ ہے کہ کمپنی نے عوام میں مقبول پرانے ماڈل سے ملتے جلتے ایک نئے ماڈل کی تیاری بھی شروع کر رکھی جسے ماضی میں کئ بار آزمایا بھی جا چکا ہے اور حالیہ دنوں میں سندھ میں اس کا کامیاب تجربہ جاری ہے لیکن اب سنا ہے کہ اس ماڈل کو گلگت بلتستان جیسے دشوار گزار علاقوں میں بھی آزمایا جارہا ہے۔

اس ماڈل کی خاص بات یہ ہے کہ اس ماڈل میں کسی حادثے کی گنجائش نہیں ہے اور نہ یہ ماڈل انتقامی کارروائی میں استعمال ہوسکتا ہے اس ماڈل کی جو سب سے خاص بات ہے وہ یہ کہ اس ماڈل کی رونمائی کے بعد کمپنی کے مخالفین کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں رہے گا کہ وہ کمپنی کے اس نئے ماڈل پر کوئی اعتراض کر سکیں یا اس کے خلاف کوئی پروپیگینڈہ یا احتجاج کر سکیں اور یہ ماڈل عوام میں اچھی خاصی مقبولیت بھی رکھتا جس سے کمپنی کو کافی وقت مل جائے گا کہ وہ اس دوران کوئی عوام کی پسند کے مطابق نیا ماڈل تشکیل دے سکیں۔

کیونکہ اگر نیا ماڈل تشکیل نہیں دیا گیا تو خدشہ ہے کہ عوام کی جانب سے باقی تمام پرانے ماڈلز کی بحالی کا مطالبہ بھی کیا جانے لگے جن میں سے کچھ ایسے ماڈلز بھی ہیں جن کو ماضی میں کمپنی کے خلاف انتقامی کاروائیوں میں ملوث پایہ گیا ہے اور کمپنی یہ کبھی بھی نہیں چاہے گی کہ ایسے ماڈلز کی تیاری دوبارہ شروع کرنی پڑے ماضی میں 1971 ، 1988, 1993 اور خاص طور پر2008 میں کمپنی کے سی ای او کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کمپنی کو اسی قسم کی صورت حال کا سامنا تھا جس سے کمپنی اوپر بیان کی گئی پرانی اور آزمودہ حکمت عملی سے نبرد آزما ہوئی اور آج تک اسی آب و تاب سے قائم و دائم ہے اور چل رہی اس طرح سہیل وڑائیچ صاحب کا یہ دعویٰ کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی بلکل غلط اور بے بنیاد ہے کمپنی چل رہی ہے اور کمپنی شاید ہمیشہ چلتی رہے۔

مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔