اس بات میں شاید اب شک کی گنجائش رہ نہیں گئی کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹانا اپوزہشن کے بس کی بات نہیں. اس کی جہاں اور بہت سی وجوہات ہیں، وہیں اپوزیشن کا حکومت کو ہٹانے کے بعد کے معاملات پر اتفاق ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا. ایک طرف بلاول بھٹو زرداری اور ان کی پیپلز پارٹی ہیں جو چاہتے ہیں کہ اس حکومت کو کل کی بجائے آج ہی چلتا کر دیا جائے. مولانا فضل الرحمان اس حوالے سے ان سے مکمل طور پر متفق بھی ہیں. اس کی بھی وجوہات ہیں. مولانا فضل الرحمان چاہے کبھی بھی انتخابات ہوں، پاکستان کے وزیر اعظم تو بننے سے رہے. وہ تو چاہیں گے انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے، موجودہ حکومت کو جانا چاہیے کیونکہ وہ اس حکومت سے نفرت کرتے ہیں.
بلاول کی طرف دیکھا جائے تو وہاں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے. سندھ کو پیپلز پارٹی سے کوئی لے نہیں سکتا اور پنجاب اس کی جھولی میں کوئی ڈالے گا نہیں. خیبر پختونخوا اور دیہی سندھ سے چند مزید نشستیں حاصل ہو بھی جائیں تو بھی پیپلز پارٹی اس پوزیشن میں تو نہیں آ جائے گی کہ وفاقی سطح پر حکومت بنا لے. اس کے لئے اسے ایک بار پھر مسلم لیگ نواز یا پھر مسلم لیگ ق بمع دیگر چھوٹی جماعتوں کی ضرورت ہوگی اور ان سب کے مل جانے کے باوجود شاید ضرورت پوری نہ ہو سکے. لہذا بلاول بھی چاہیں گے کہ انتخابات ہوں یا نہ ہوں، حکومت تبدیل ہو جائے تو سندھ حکومت کے سر پر منڈلاتا گورنر راج کا مسلسل خطرہ بھی ٹل جائے گا اور نیب وغیرہ سے بھی کچھ ریلیف ملنے کی امید پیدا ہوگی.
لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں یہ حکومت گرانے کی طاقت صرف مسلم لیگ نواز میں ہے اور اس کو حکومت گرانے کی کوئی جلدی نہیں. کیوں؟ نواز شریف اس وقت نااہل ہیں، ان کی صاحبزادی بھی نااہل ہیں. فوری تبدیلی کی صورت میں یہ دونوں تو حکمران بننے سے رہے. شہباز شریف کے نام پر پیپلز پارٹی متفق نہیں ہو سکتی اور خاندان سے باہر وزارت عظمی جانے نہیں دی جائے گی. اندر کا حال جاننے کا دعوی رکھنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ان ہاؤس تبدیلی کے لئے سب راضی تھے، ایاز صادق کے نام پر اتفاق بھی ہو گیا تھا مگر یہ گھر سے باہر کی وزارت عظمی والے اصول پر ہی یہ کھیل بھی خراب کر دیا گیا.
یوں بھی مسلم لیگ نواز کو سرویز میں اپنی مقبولیت اور عوام میں مہنگائی اور بیروزگاری کے حالات دیکھ دیکھ کر شاید یہ یقین ہو چلا ہے کہ انتخابات جب بھی منعقد ہوئے، اقتدار سیدھا اس کی جھولی میں آ گرے گا. اب یہ امید صحیح ہے یا غلط اس سے قطع نظر، یہ بات تو ماننا ہی ہوگی کہ نواز لیگ اپوزیشن کی وہ واحد جماعت ہے جسے نئے انتخابات میں دلچسپی ہو سکتی ہے. مگر اس پر مقتدر قوتیں راضی نہیں. اور شریف برادران کا خیال ہے کہ اگر اس مشکل صورتحال میں حکومت لی گئی تو یہ تحریک انصاف کے گلے میں پڑا ڈھول اپنے گلے ڈالنے والی بات ہوگی اور وہ بھی ایک ایسی صورت میں کہ جب اس اسمبلی کا legitimacy کا بحران اپنی ہی جگہ رہے گا بلکہ ان ہاؤس تبدیلی کی صورت میں مزید بڑھے گا. اور سیاسی حکومت مزید کمزور ہوگی. یہ سب کرتے کرتے بھی کچھ نہیں تو 6 ماہ لگ جائیں گے اور کسی بھی آئینی مدت کا آخری سال تو یوں بھی الیکشن کا سال ہوتا ہے. تو پھر ایک سال کے لئے حکومت کا مزا لینا بھی کس کام کا کہ جب اس کی ساری لعن طعن بھی اپنے گلے آ پڑے اور ایک سال میں کوئی بھی کیا تیر چلا سکتا ہے؟
سو معاملہ یہ ہے کہ موجودہ اپوزیشن عمران خان حکومت کو گرانے کی کوشش یوں نہیں کر رہی کہ یہ چاہتی ہے کہ عمران خان اپنے 5 سال مکمل کریں تاکہ ان کا انتخابات تک صفایا ہو چکا ہو، جو کہ خیر اب اتنا بھی آسان نہیں، مگر کم از کم نواز شریف کو تو شاید یہی لگتا ہے.
لہذا یہ تو طے ہوا کہ اپوزیشن کے متحارب مفادات کی موجودگی میں اس کا عمران حکومت کے خلاف اکٹھے ہونا ممکن نہیں. اور اس طرح یہ سامنے آیا کہ عمران حکومت کو گرانے کے لئے کچھ دیگر قوتوں کو ہی کچھ کرنا پڑے گا. مگر سہیل وڑائچ کا ہفتے کو لکھا کالم پڑھیے تو یہ واضح ہے کہ مقتدر قوتوں کی جانب سے عمران خان کو پیار سے سمجھایا جا رہا ہے کہ باز آ جائیں ورنہ نقصان اٹھائیں گے. حکومت کو اسٹیبلشمنٹ سے دو بڑی شکایتیں ہیں، ایک تو نواز شریف کو باہر جانے دینا اور دوسری عثمان بزدار کو نکالنے پر اصرار. عمران خان قطعاً یہ نہیں چاہتے.
اپنے کالم میں سہیل وڑائچ نے عمران خان کو کچھ مشورے دیے ہیں جو قارئین تک ہم بھی پہنچا دینا چاہتے ہیں کیونکہ اگر کوئی خبر سہیل وڑائچ کے پاس سے آ رہی ہے تو یقیناً اس کی آواز اوپر والوں تک بھی پہنچے گی. انہوں نے عمران خان کو کیا مشورے دیے، سنیے:
نواز شریف کو واپس لانا ایک سیاسی نعرے کے طور پر تو تحریک انصاف کو سوٹ کرتا ہے لیکن اگر نواز شریف واقعی واپس آ کر جیل چلے جاتے ہیں اور پھر ان کی طبیعت خراب ہوتی ہے تو حکومت کیا کرے گی؟ نواز شریف بیرون ملک موجود ہوں خاموش رہیں تو تب وہ تحریک انصاف کے لئے بڑا خطرہ ہیں یا وہ ملک کے اندر آ کر جیل میں رہیں تب بڑا خطرہ ہیں۔ میری رائے میں تو حکومت کا زیادہ فائدہ اس میں ہے کہ نواز شریف بیرون ملک ہی رہیں۔ اسی طرح فرض کریں نیب کے ذریعے وزیر اعلیٰ بزدار رخصت ہوں تو تحریک انصاف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا لیکن اگر عمران خان خود سیاسی طور پر فیصلے کرتے ہوئے بزدار صاحب کی جگہ پی ٹی آئی کا کوئی اور نمائندہ لے آئیں تو ان کے لئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں بنے گا۔ ظاہر ہے ان دو امور پر حتمی فیصلہ تو وزیر اعظم نے خود کرنا ہے وہ ایسا حل نکالیں جس سے سیاست اور حالات میں آگ مزید بھڑک اٹھے یا پھر اس آگ پر اپنے فیصلوں سے پانی پھینک دیں؟
افسوس تو یہ ہے کہ کوئی بھی ماضی سے نہیں سیکھتا، چھوٹی چھوٹی غلط فہمیوں سے اختلافات کی خلیج گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔ اگر ہر غلط فہمی کا حل نکال لیا جائے باہمی مشورے سے باعزت رستہ نکال لیا جائے تو شاید حکومت کی رخصتی کا مرحلہ نہ آئے مگر جب انائیں لڑتی ہیں جذبات بھڑکتے ہیں تو پھر بالآخر لڑائی ہو جاتی ہے۔ امید ہے اس بار لڑائی سے بچنے کی تدابیر کی جائیں گی۔
کیا عثمان بزدار نیب کے شکنجے سے بچ پائیں گے؟ کیا نواز شریف کی لندن سے واپسی کسی مشکل کا حل ہوگی؟ اگر نہیں، تو حکومت بھی تو سوچے کہ ایک بحران سے توجہ ہٹانے کے لئے درموسرا بحران کھڑا کرنا کیا ایک مسلسل سیاسی حکمتِ عملی ہو سکتی ہے؟