عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق صدر عارف علوی  کی دستخط شدہ دستاویز سپریم کورٹ میں پیش

یف جسٹس نے کہا کہ اگر سب خوش ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ الیکشن کمیشن اور تمام فریقین کی رضامندی ہے۔ تمام ممبران نے متفقہ طورپر تاریخ پر رضامندی دی لیکن کسی آئینی شق کا حوالہ نہیں دیا۔

عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق صدر عارف علوی  کی دستخط شدہ دستاویز سپریم کورٹ میں پیش

صدر مملکت عارف علوی نے ملک میں 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ پر دستخط کردیے جس کی کاپی سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر سب خوش ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ الیکشن کمیشن اور تمام فریقین کی رضامندی ہے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران ‏تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر اور اٹارنی جنرل پیش ہوئے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ صدر اور الیکشن کمیشن کی ملاقات کی منٹس عدالت کو کچھ دیر فراہم کر دیتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر کیس کو آخر میں ٹیک اپ کر لیتے ہیں۔ ‏پہلے ہم روٹین کے مقدمات سن لیں۔ بعد میں انتخابات کیس سنیں گے۔

اس موقع پر سماعت میں کچھ دیر کیلئے وقفہ کر دیا گیا۔

وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے چیف الیکشن کمشنر کا الیکشن کی تاریخ سے متعلق خط عدالت میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن وفد ملاقات کے منٹس بھی عدالت میں پیش کر دیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں پیش کئے گئے ریکارڈ پر صدر کے دستخط نہیں ہیں۔ صدر مملکت نے دستخط کیوں نہیں کئے؟پہلے ان دستاویز پر صدر مملکت کے دستخط کروائیں، پھر آپ کو سنتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں اور الیکشن کمیشن کے نمائندے بھی موجود ہیں۔ صدر مملکت کی طرف سے یہاں کوئی نہیں ہے اور آفیشلی دستخط بھی نہیں ہیں۔ صدر مملکت نے دستخط کیوں نہیں کئے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر مملکت نے اپنی رضا مندی کا لیٹر الگ سے دیا ہے۔  چیف جسٹس نے کہا کہ صدر مملکت کی رضا مندی کا خط کہاں ہے۔ ایوان صدر یہاں سے کتنا دور ہے۔ہم ایسے نہیں چھوڑیں گے۔ صدر مملکت کی آفیشلی تصدیق ہونی چاہیے۔

ان ریمارکس کے ساتھ ہی چیف جسٹس نے صدر مملکت کے دستخط ہونے تک سماعت میں وقفہ کر دیا۔

وقفے کے بعد جب اٹارنی جنرل دوبارہ عدالت پہنچے تو انہوں نے بینچ سے ملاقات کی۔ اٹارنی جنرل کے کمرہ عدالت پہنچنے پر چیف جسٹس نے کہا کہ بہت دیر ہوگئی اٹارنی جنرل صاحب۔

اٹارنی جنرل نے صدر مملکت کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے دستخط شدہ خط عدالت میں پیش کر دیا۔ نوٹیفکیشن الیکشن ایکٹ کی دفعہ 217 تحت جاری ہوا ہے۔ عدالت میں پیش کئے گئے نوٹیفکیشن پر 3 نومبر کی تاریخ درج ہے۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عام انتخابات 8 فروری کو کرانے کا الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن بھی پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سب خوش ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ الیکشن کمیشن اور تمام فریقین کی رضامندی ہے۔ تمام ممبران نے متفقہ طورپر تاریخ پر رضامندی دی لیکن کسی آئینی شق کا حوالہ نہیں دیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حکمنامہ لکھوانا شروع کیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ 2 نومبر 2023 کی ملاقات کے بعد انتخابات کی تاریخ پر اتفاق کیا گیا۔ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کیلئے پورے ملک کی تاریخ دے دی۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے اتفاق کیا کہ انتخابات کا انعقاد بغیر کسی خلل کے ہو گا۔

حکمنامے میں مزید کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے بھی 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ قومی اسمبلی وزیراعظم کی ایڈوائس پر تحلیل کی گئی یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد صدر اور الیکشن کمیشن کے مابین اختلاف ہوا۔ چاروں صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز نے حکمنامہ پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ صدر نے خط میں لکھا کہ الیکشن کمیشن صوبائی حکومتوں سے مشاورت کر کے تاریخ کا اعلان کرے۔  صدر کے اس خط پر الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ سپریم کورٹ کا تاریخ دینے کے معاملے پر کوئی کردار نہیں۔ صدر مملکت اعلی عہدہ ہے، حیرت ہے کہ صدر مملکت اس نتیجے پر کیسے پہنچے۔

حکم کے مطابق تاریخ دینے کا معاملہ سپریم کورٹ یا کسی اور عدالت کا نہیں۔ صدر مملکت کو اگر رائے چاہیے تھی تو 186آرٹیکل کے تحت رائے لے سکتے تھے۔ ہر آئینی آفس رکھنے والا اور آئینی ادارہ بشمول الیکشن کمیشن اور صدر آئین کے پابند ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ بینچ نے حکم جاری کیا تھا کہ الیکشن کمیشن آج صدر سے مشاورت کرے اور عام انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کرے۔

سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامہ میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان صدر مملکت سے آج ہی ملاقات کرے اور عام انتخابات کی تاریخ طے کرے۔ اٹارنی جنرل صدر مملکت سے الیکشن کمیشن کی ملاقات کا انتظام کریں۔ اٹارنی جنرل اس عدالت کا 23 اکتوبر کا حکم نامہ صدر کو دیں اور معاونت کریں۔

سپریم کورٹ کے حکم نامہ میں مزید کہا گیا کہ امید کرتے ہیں کہ انتخابات کی تاریخ کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا جائے گا۔ انتخابات کی تاریخ کا تعین کر کے عدالت کو 3 نومبر کو آگاہ کیا جائے۔

سپریم کورٹ کے حکم پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ صدر عارف علوی سے ملاقات کے لیے ایوان صدر پہنچے۔ ممبران الیکشن کمیشن جسٹس (ر) اکرام اللّہ خان،شاہ محمود جتوئی اور بابر حسن بھروانہ  بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کےدرمیان ہونے والی ملاقات میں ملک میں آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کیلئے تاریخ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

الیکشن کمیشن نے عام انتخابات  کے لۓ 28 جنوری، 4 اور 11 فروری کی تین تاریخیں صدر کے سامنے رکھی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے صدر کو بتایا کہ  ہم نے 11 فروری کی تاریخ سپریم کورٹ کو دی ہے ۔ 11 فروری انتخابات کے لیے موزوں تاریخ ہے۔ سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم کے لیے بھی وقت مل جائے گا۔

اعلامیے کے مطابق صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں اور انتخابات کے حوالے سے کی گئی پیش رفت کو سنا اور تفصیلی بحث کے بعد اجلاس نے متفقہ طور پر ملک میں عام انتخابات 8 فروری 2024 کو کرانے پر اتفاق کیا۔ ملک میں عام انتخابات کا انعقاد 8 فروری کو ہو گا۔