یہ بیانیہ کہ ہماری انکم ٹیکس کی بنیاد بہت محدود ہے اور آبادی کا صرف 2 فیصد حصہ آمدن پر انکم ٹیکس ادا کرتا ہے، مکمل طور پر بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس وقت 130 ملین پاکستانی تو وہ ہيں جو صرف موبائل کے ساتھ 15 فیصد پیشگی انکم ٹیکس ادا کرتے ہيں۔ اس کے علاوہ بہت سے افراد اور ادارے ایڈجسٹ ایبل (adjustable) یا نان ایڈجسٹ ایبل (nonadjustable) ودہولڈنگ ٹیکسز (withholding) کے دائرے میں ہیں۔ یہ ٹیکسز بلا تفریق قابلِ آمدن اور نا قابلِ آمدن افراد پر لاگو ہوتے ہیں۔
انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کا ودہولڈنگ ٹیکسز کا نظام سب موبائل استعمال کرنے والوں کو دائرے میں لاتے ہوئے اُن افراد سے بھی جبری انکم ٹیکس وصول کرتا ہے جن کی کوئی آمدنی نہیں یا ان کی آمدنی قابلِ ٹیکس حد سے کم ہے۔
ایسے 13 کروڑ افراد پیشگی انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں، لیکن اُن کو اس کا علم ہی نہیں اور نہ ہی وہ ٹیکس ریٹرن (گوشوارہ) جمع کراتے ہیں۔ اس سے یہ غلط تاثر قائم ہوتا ہے کہ ہماری آبادی کا بہت کم حصہ انکم ٹیکس ادا کرتا ہے۔ درست بیان یہ ہونا چاہئیے کہ گوشوارے جمع کروانے والوں کی تعداد کل آبادی کا محض 2 فیصد ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان سب پر انکم ٹیکس گوشوارہ دینا لازم ہے؟ قانون کے مطابق ہرگز نہیں۔
درحقیقت انکم ٹیکس پیشگی ادا کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے، لیکن گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد ٹیکس سال 2023 کے لئے 31 اکتوبر تک تقریباً 2.9 ملین رہی۔ ایف بی آر کی ویب سائٹ پر30 اکتوبر تک فعال ٹیکس گزاروں، یہ لسٹ ہر سوموار کو اپ ڈیٹ کی جاتی ہے، کی تعداد 4,980,335 تھی، جس میں افراد 3,360,957 اور بقیہ کمپنیز یا کاوباری شراکت دار ہیں۔ رواں سال کے آخر میں خیال ہے کہ یہ تعداد 52 لاکھ تک ہو جائے گی، جب توسیع شدہ تاریخ برائے داخلہ گوشوارہ ختم ہونے کے بعد مزید مدت حاصل کرنے والے اور کچھ نئے ٹیکس گزار بھی گوشوارے جمع کروا دیں گے۔
پچھلے سال کئی ماہ کی توسیع دینے کے بعد یہ تعداد 31 دسمبر 2023 تک 40 لاکھ تک گئی تھی، مگر اس سے محصولات میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا تھا، بلکہ مالی سال 23-2022 میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح محض 8.5 فیصد تھی جو کہ مالی سال 2022۔2021 میں 9.2 فیصد تھی۔ زیادہ تر لوگوں نے یقیناً قابلِ ٹیکس آمدنی سے کم گوشوارے دیے تا کہ وہ فائلر ہونے کا فا ئدہ اُٹھا سکیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ 49.8 لاکھ ایکٹو ٹیکس گزاروں یعنی گوشوارے داخل کرنے والوں میں سے محض 20 لاکھ نے انکم ٹیکس ادا کیا ہے۔ باقی تمام گوشوارے یا تو صفر آمدنی کے ہیں یا آمدنی قابلِ ٹیکس حد سے کم ہے یا خسارہ دکھایا گیا ہے۔ یہ ہے اصل حقیت گوشوارں میں امسال 10 لاکھ اضافے کے دعوے کی، جس پر قوم اور IMF کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔
ایک وقت تھا جب ایف بی آر کے پاس گوشوارں کے ساتھ انکم ٹیکس ادا کرانے والوں کی تعداد 30 لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی تھی، اب یہ صرف 20 لاکھ ہے۔ اس گراوٹ کو دیکھتے ہوئے ایف بی آر کے حکام کو ٹھنڈے دل سے اپنا محاسبہ کرنا ہو گا کہ کہاں خرابی واقع ہوئی، لاکھوں گوشوارں کے ساتھ ٹیکس جمع کرانے والے کہاں غائب ہو گئے؟ درحقیقت یہ تنزلی کسی بھی ٹیکس وصول کرنے والی مشینری کے لیے انتہائی تشویش ناک ہونی چاہئیے، لیکن ایف بی آر اس سے مکمل طور پر اغماض برتتا ہے، جیسا کہ یہ کوئی معمول کی صورت حال ہو۔ ادارہ اس بات سے خوش ہے کہ ٹیکس گوشواروں کی تعداد بڑھ رہی ہے، چاہے وہ صفر آمدنی یا قابلِ ٹیکس آمدنی کی حد سے کم یا خسارے کے ہیں۔
پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے مطابق جولائی 2014 میں، بائیومیٹرک تصدیق سے پہلے، ملک میں موبائل فون صارفین کی تعداد 140,022,516 تھی، کچھ اشخاص کے پاس ایک سے زائد SIMs بھی ہوتی ہیں۔ تصدیق کا عمل مکمل ہونے کے بعد اپریل 2015 میں یہ تعداد کم ہو کر 13 کروڑ 18 لاکھ رہ گئی۔ 30 ستمبر 2023 کو ان کی تعداد بڑھ کر 19 کروڑ ہو گئی۔ مالی سال 2023 میں موبائل فون صارفین، جن کی تعداد 13 کروڑ سے کم نہیں، نے 15 فیصد پیشگی انکم ٹیکس وفاق کو اور 19.5 فیصد سیلز ٹیکس صوبوں کو بھی ادا کیا لیکن ان میں سے تا حال، ٹیکس سال 2023 کے لیے صرف 2 فیصد نے 31 اکتوبر 2023 تک انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروائے ہیں۔ یہ بہت تکلیف دہ رجحان ہے۔
ایف بی آر ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیوں کے پاس دستیاب مواد کو جانچنے کی زحمت نہیں کرتا، ورنہ وہ دولت مند صارفین کو گوشوارے جمع کرانے کے لیے نوٹس دیتا۔ موبائل فون صارفین کی اکثریت قابل ٹیکس آمدن نہیں رکھتی، چنانچہ وہ قانونی طور پر گوشوارہ جمع کرانے کے پابند نہیں۔ اگر وہ پیشگی ٹیکس کی واپسی بابت ایسا کرتے ہیں تو اُنہیں ڈر ہوتا ہے کہ وہ ایف بی آر کے افسران کی زیادتیوں اور بے ضمیر ٹیکس مشیروں کی بدعنوانی کا شکار ہو جائیں گے اور رقم کی واپسی یعنی ریفنڈ کے بجائے مزید نقصان اٹھا سکتے ہیں۔
خرابی کی اصل جڑ یہ افراد نہیں، بلکہ پاکستان کے انتہائی دولت مند افراد ہیں جو ٹیکس گوشوارہ جمع کرانے کی زحمت ہی نہیں کرتے اور اس پر مستزاد یہ کہ حکومت اور ایف بی آر افسران اُن کا مکمل طور پر تحفظ کرتے ہیں۔ یہ صورت حال بلاشبہ حکومت اور ایف بی آر کی نااہلی اور بے عملی پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دولت مند اور طاقتور افراد اپنی حیثیت کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ مالی سال 2022 میں ایک ملین سے دس ملین تک ٹیکس ادا کرنے والے افراد کی تعداد محض 30,000 تھی۔ مہنگی گاڑیاں چلانے، پرتعیش گھروں میں رہنے، غیر ملکی سفر کرنے اور وسیع وعریض جاگیریں رکھنے والے اس ملک میں سے صرف 25,780 افراد نے 10 لاکھ سے زائد انکم ٹیکس ادا کیا۔
پاکستان کی موجودہ آبادی 242 ملین ہے۔ کل آبادی میں سے 64 فیصد کی عمر پندرہ سال سے اُنتیس سال کے درمیان ہے اور 30 فیصد پندرہ اور اُنیس کے درمیان ہیں۔ (اس کا مطلب ہے کہ زیادہ تر اُن کا شمار کمانے والے افراد میں نہیں ہوتا یا آمدنی قابلِ ٹیکس کی حد سے کم ہے)۔ ہمارے پاس دنیا کی نویں بڑی لیبر فورس ہے۔ لیبر فورس سروے حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 72 ملین کے لگ بھگ ہے۔ ان میں سے 67 ملین کام کرتے ہیں جبکہ باقی بے روزگار ہیں۔ روزگار رکھنے والوں میں سے تقریباً 45 ملین کا تعلق دیہی افرادی قوت سے ہے۔ اگر ان تمام حقائق کو ملا کر پڑھیں تو 2022۔2021 کے مالی سال کے دوران کمانے والے افراد کی تعداد 10 سے 12 ملین کے قریب تھی۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ اُس سال انکم ٹیکس گوشوارے میں اضافے کا ہدف پورا نہ ہوا۔ یہ کمی کا وسیع خلا آج بھی موجود ہے۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا، 130 ملین موبائل صارفین نے مالی سال 2023 میں پیشگی 15 فیصد انکم ٹیکس ادا کیا، مگر اُن میں سے اکثر کی آمدنی قابل ٹیکس حد سے کم تھی۔ اس کے باوجود ایف بی آر بے بنیاد پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت انکم ٹیکس ادا نہیں کرتی اور یہ کہ یہاں ٹیکس کی بنیاد بہت محدود ہے۔ ایک قومی ٹیکس ادارے کی طرف سے پاکستانیوں کا یہ منفی تاثر پیش کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عام پاکستانی سیلز ٹیکس کے علاوہ انکم ٹیکس ادا کرتا ہے لیکن جن افراد سے ٹیکس وصول کیا جانا چاہئیے، اُن سے ایف بی آر وصول نہیں کر پاتا۔ اس طرح یہ صریحاً ایف بی آر کی اپنی کوتاہی اور نااہلی ہے کہ یہ براہ راست اور بالواسطہ محصولات کے فرق کو کم کر کے معقول حد تک لانے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ یہ اعداد و شمار بہت ہی سادہ ہیں اور ان کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔
پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کی طرف سے کیے گئے حالیہ ہاؤس ہولڈ انٹی گریٹڈ سروے کے مطابق پانچ ملین افراد کی سالانہ قابل ٹیکس آمدن پندرہ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اگر یہ تمام افراد گوشوارے جمع کرائیں تو تقریباً 2500 بلین روپے وصول کیے جا سکتے ہیں۔ اگر کمرشل کمپنیوں اور دیگر اداروں اور افراد، جن کی آمدنی پانچ لاکھ سے 10 لاکھ روپے کے درمیان ہے، اور 5 ملین امیر کبیر افراد کو بھی اس میں شامل کر لیں تو صرف انکم ٹیکس کا حجم 8000 بلین روپے سے کم نہیں ہو گا۔ کیا کوئی پوچھنے والا ہے کہ ایف بی آر نے مالی سال 23-2022 کے کے دوران تقریباً 3225 بلین کا ہی انکم ٹیکس کیوں جمع کیا؟ سرکاری اعداد و شمار میں انکم ٹیکس کے علاوہ لیبر سے متعلقہ واجبات کو بھی شامل کیا گیا ہے اور براہ راست ٹیکس کی وصولی 3272.4 بلین ظاہر کی گئی ہے۔
بالواسطہ ٹیکسز کے نظام میں انتظامی کمزوریوں، رشوت ستانی اور بہت سی خرابیوں کی وجہ سے کل پوٹینشل کا صرف 50 فیصد ہی جمع ہو پاتا ہے۔ مالی سال 23-2022 میں ایف بی آر نے سیلز ٹیکس کی مد میں 2592 بلین روپے، وفاقی ایکسائز کی مد میں 370 بلین روپے اور کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 935 بلین روپے جمع کیے۔ کل بالواسطہ ٹیکسز کی وصولی 3897 بلین رہی۔ معاشی اعداد و شمار کو مدنظر رکھیں تو ان محصولات کا پوٹینشل 7500 بلین سے کم نہیں ہے۔ ایف بی آر نے مالی سال 23-2022 میں پوٹینشل سے 8300 بلین کم ٹیکس وصول کیا۔
پاکستان میں صرف وفاقی سطح پر ہی محصولات کی وصولی کا حجم 14 ٹریلین ہو سکتا ہے۔ تاہم ایسا اُسی صورت میں ممکن ہے جب معاشرے کے طاقتور طبقات کو ٹیکس دائرے میں لایا جائے اور متوازی معیشت کو دستاویزی شکل دی جائے۔ اس مقصد کے لیے ٹیکس مشینری کی اوورہالنگ کرنے، محصولات کے نظام میں موجود عقربی خامیوں کو دور کرنے اور طاقتور افراد کو ٹیکس کی رعایت دینے کا سلسلہ بند کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے بینک، واپڈا، پی ٹی سی ایل اور موبائل فون کمپنیاں مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ ہیں اور یہ ایف بی آر کے لیے ٹیکس وصول کرتے ہیں۔ ان کے پاس موجود اعداد و شمار کو استعمال کرتے ہوئے ایف بی آر منصفانہ ٹیکس بنیاد کا تعین کر سکتا ہے۔ جو افراد گوشوارے جمع نہیں کراتے، ان کے ٹیکس کا تعین عارضی جائزے کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی ستم ظریفی ہے کہ یہاں عام لوگوں جو متوسط یا اُس سے بھی نچلی سطح پر ہیں، اُن کو پیشگی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور پھر ستم دیکھیں کہ قابل ٹیکس آمدنی نہ ہونے کے باوجود گوشواروں کے لئے مجبور کیا جاتا ہے اور محصولات ادا نہ کرنے کے طعنے سننا پڑتے ہیں۔ جبکہ انتہائی دولت مند افراد سے کوئی پوچھ گچھ نہیں۔
یہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 4(c) کی کھلی خلاف ورزی ہے جس کے مطابق 'کسی شخص کو کوئی ایسا کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا جس کا کرنا اس کے لیے قانون کے مطابق ضروری نہ ہو'۔ چنانچہ ایک غریب شخص جس کی آمدن قانون کے مطابق قابل ٹیکس نہیں، سے کس طرح جبری پیشگی انکم ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے؟ کیا وہ پیشگی وصول شدہ ٹیکس واپس لینے کے لیے اُس سے زائد خرچ کرے اور پھر اہلکاروں کی تیرہ دستیوں کا شکار بھی ہو؟ ناانصافی پر مبنی موجودہ ٹیکس نظام ایک بیوہ سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ نیشنل سیونگ سنٹر میں کی گئی انوسٹمنٹ، پنشن، گریجویٹی فنڈز، جو اسے شوہر کی وفات پر وصول ہوئے، سے حاصل ہونے والی آمدنی پر 5 فیصد ٹیکس ادا کرے۔ یہی قانون دولت مند افراد سے پانچ ملین تک سود کی آمدن پر صرف 15 فیصد ٹیکس وصول کرتا ہے۔
پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے وصول کیے جانے والے محصولات میں سے 75 فیصد بالواسطہ ہیں۔ انکم ٹیکس قانون کے اندر بہت سے ٹیکس اس طرح سے نافذ ہیں جن کا بوجھ عام شہری کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایف بی آر اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہے تو وہ اس کا اعتراف کرنے کے بجائے عام آدمی ہی کو مورد الزام ٹھہرانے لگتا ہے۔ کیا اس کی ناقص کارکردگی اور بدعنوانی کی ذمہ داری پاکستان کے عام شہریوں پر عائد ہوتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ جو لوگ اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں، ان کا محاسبہ کیا جائے۔