احتساب اپنے جوبَن پر،”اپوزیشن “کا

احتساب اپنے جوبَن پر،”اپوزیشن “کا
2018 ملک کی ترقی روکنے، ملک میں لوٹ کھسوٹ کرنے، ریاست کے پیسہ کا بے دریغ استعمال کرنے والوں کے لے المناک ثابت ہوا۔ قسط اِدھر سے شروع ہوتی ہے جب پاناما کیس کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف کو عہدے سے نااہل کر دیا اور ملک میں احتساب کا نیا سلسلہ شروع ہوا، عجب کہانی ہے مخصوص مدت کے لئے احتساب کیا جاتا ہے اور پھر اپنی پرانی روایت کے مطابق ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔


موجودہ تاریخ میں احتساب کا بیلچہ پوری طاقت کے ساتھ گھمایا گیا ہے، اڈیالہ جیل زرداری خاندان کا مسکن بنا اور کوٹ لکھپت شریف خاندان کی رہائش گاہ بن چکی، مری کے عباسی ہوں یا سکھر کے شاہ، لاہور کے خواجہ بردارن یا پھر منشیات کی سمگلنگ کرنے والے رانا ثنا اللہ سب احتساب کی چکی چلا رہے ہیں، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ قسط کا اختتام سٹار پلس کے ڈراموں کی طرح ہو گا یا نوزائیدہ پاکستانی فلموں کی طرح اس کا فیصلہ باقی ہے۔

’پاکستان میں احتساب کو انتقام کے طور پر یا مخالفین کو سبق سکھانے کے لئے کیا جاتا ہے، کرپشن، چوری کا واویلا بہت مچایا جاتا ہے لیکن اس کرپشن کی بنیاد تلاش نہیں کی جاتی ‘، حالیہ احتساب اس بات کو بہت جلا بخش رہا ہے۔ یکطرفہ کارروائیوں سے اپوزیشن کو نہیں ریاست کے ڈھانچے کو نقصان پہنچتا ہے مگر حکمرانِ وقت کے مطابق اپوزیشن کا احتساب ملک کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے، یہی ماضی کی لوٹ مار میں شامل ہیں۔’ احتساب کی لاٹھی ان پر چلانا ضروری ہے اور چیرمین نیب بھی اسی طرح کا موقف رکھتے ہے ‘۔

خیر سرکاری مؤقف ایک طرف اپوزیشن کے منجھے کھلاڑیوں کا خیال ہے یہ موسمی احتساب کا دور بہت جلد ختم ہو گا اور تاریخ بھی اس بات کی جانب اشارہ دیتی ہے کہ مصنوعی نوعیت کے نعروں سے زیادہ نہیں دیر چلا جاتا۔ ملک کی معیشت، قومی سلامتی کے امور ہوں یا گورنس کے مسائل، یہ احتسابی نعروں سے حل نہیں ہوتے بلکہ علمی اقدامات اور نظام کی تبدیلی پر منحصر ہے، اگر نظام ہی کو تبدیل کر دیا جائے تو کیا کرپشن، لوٹ مار کا بازار ختم نہیں ہو جائے گا؟ لیکن’افسوس! نظام کی تبدیلی کے لیے اٹھنے والی ہر آواز بند کر دی جاتی ہے۔

بہرحال، سوال تو اٹھتا ہے یہ احتسابی میلہ ہے یا پھر اپوزیشن کو سبق سکھانے کا عمل۔