وراثت میں ملے تعصب اور انتہا پسندی، معاشرے کی رگوں میں بھر چکے

وراثت میں ملے تعصب اور انتہا پسندی، معاشرے کی رگوں میں بھر چکے
ہم دنیا بھر میں موروثی نظام اور موروثی مفادات کے خلاف باقاعدہ مہم دیکھتے ہیں جو کہ جائز بھی ہوتی ہے کہ ہنر، شعور، لگن، محنت پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ تو انسان اپنی جستجو کی بنا پر یا خدا کی جانب سے دی قدرتی صلاحیتوں پر دوسری سے قابل بنتا ہے۔

مگر بعض خصلتیں نسل در نسل انسان میں خونیں رشتوں کی مانند منتقل ہوتیں ہیں، میں اس پر اب یقین رکھنے لگ گیا ہوں اس کی بنیادی وجہ تو پاکستان کی عوام اور اس کی سوچ کا پیمانہ ہے جو کئی دہائیوں سے اس بنا پر نہیں بدلا اور نہ اس میں جدت آ سکی کہ ہمارے بڑے بزرگ اس نظریے یا سوچ پر قائم تھے لہذا یہ بدلنا تو ایمان بیچنے کے مترادف ہے۔

پاکستان میں اگر اس بات پر ایک سروے کروایا جائے کہ کس میں اس کے باپ کی کتنی خصلتیں منتقل ہوئیں ہیں اور بعد میں ان کو اچھائی اور برائی کے مابین علیحدہ کیا جائے تو اکثریت کا حال یہ ہے کہ اچھائی ان کی رگوں میں شامل ہو یا نا ہو مگر برائی، تعصب، انتہاء پسندی، متشدد پن، جہالت، تہم پرستی لازمی منتقل ہوتی آئی ہے۔

پاکستان دنیا بھر میں وہ واحد ملک ہے جو اپنے ملک کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والوں کو یا تو غدار قرار دیتا ہے یا ایجنٹ اور یہ ریت کوئی نئی نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے چند عرصے بعد ہی اس کا پودا لگ گیا تھا جو کہ اب تناور درخت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے بھی آج ہمیں کئی سو سال پرانے توہم پرستانہ نظریات وعقائد ہر اٹل رہنے کی ترغیب یوں دی جاتی ہے کہ اس میں بقا اور فنا کا عنصر ضرور نظر آتا ہے۔ جبکہ آج سے کئی سو سال قبل اس سب پختہ عقائد کی بنیادی وجہ انفارمیشن کی روانی نہ ہونا تھا جس کی بنا پر دنیا بھر میں کئی ممالک اور ریاستوں میں انقلاب آئے کیونکہ اس وقت لوگ ایک نظریے کو سنتے تو اس کا کائونٹر موجود نہ ہوتا اور اگر کوئی مخالف رائے آتی بھی تو وہ عوام میں مقبول ہونے سے قبل پچھلا نظریہ عوام کے دل و دماغ میں یوں پختہ ہوتا کہ اس پر جینے مرنے کی نوبت آ چکی ہوتی مگر اب جدید دور میں یہ تمام معاملات ہمارے موبائل کے ایک کلک کی مار ہوتے جہاں ہم کسی بھی نئے نظریے کا پوسٹ مارٹم کچھ سیکنڈ میں کر کے اس کی اہمیت کو چند منٹ میں جانچ لیتے ہیں۔

مگر یہ سب کچھ بھی ان معاشروں میں ہو رہا ہے جو شعور اور جدت پر یقین رکھتے ہیں اور ترقی پسند ممالک یا معاشرہ یا تو بن چکے یا بننے کی لگن رکھتے ہیں پاکستان میں ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے اور وہ بیرونی ایجنسیوں کے ایجنٹ کے طور پر نمایاں ہوتے ہیں یا منظر عام سے غائب ہوتے ہیں۔

آپ اس ملک کی نسل در نسل چلتی تعصب بھری سوچ کو یہاں سے ملاحظہ فرمائیں کہ پاکستان نے دو لوگ ایسے پیدا کئے جنہوں نے مختلف شعبوں میں عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا اور ملک میں امن، تعلیم، جدت کو متعارف کروانا چاہا مگر وہ اس مقصد میں دنیا بھر میں تو کامیاب ہو گئے دنیا نے ان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا اور عالمی نوبل انعام سے بھی نوازا جس میں فزکس کے شعبہ میں ڈاکٹر عبدالسلام اور تعلیم وامن کے شعبہ میں ملالہ یوسفزئی شامل ہیں مگر ان دونوں کو پاکستان میں غدار، ایجنٹ اور مذہبی بنیادوں پر نشانہ بنایا گیا دونوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا یا یوں کہیئے کے ملک بدر کیا گیا۔

اب حالات یہ ہیں کہ فزکس کے میدان میں عالمی یونیورسٹیوں میں ڈاکٹر عبدالسلام کے کام اور نام کو پڑھایا جاتا ہے اور پاکستان جہاں سے ان کا تعلق تھا، یہاں اگر کسی یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کا نام ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پر رکھنے کی تجویز دی جائے تو اگلے روز یونیورسٹی کے باہر ایک جتھا ڈنڈے اٹھائے آتا اور یونیورسٹی بند کروانے کی راہ پر چل پڑتا اور حکومت ہو یا یونیورسٹی انتظامیہ وہ اس متشدد جتھے کی بات مان کر امن کو برقرار رکھنے کی گارنٹی دیتی اور یہی واقعہ ملالہ یوسفزئی سے متعلق مختلف معاملات پر نظر آتا جب ملالہ کو ایجنٹ قرار دے پر مذہبی بنیادوں پر اس پر فتوی بازی کی جاتی اور ان کے حمایتیوں کو پاکستان کی اساس اور نظریات کا دشمن قرار دیا جاتا ہے۔

یہ تعصب اور جہالت نسل در نسل ہماری رگوں میں کئی دہائیوں سے منتقل ہوتی آ رہی ہیں اب سوال یہ ہے کہ ہم کب سوچیں گے اور سمجھیں گے یا زندگی بھر اسی کشمکش میں بھوٹان اور شام سے بھی بدتر حالات کی طرف دھکیلے جاتے رہیں گے!

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@