پاکستان میں عدم مساوات ایک بڑا مسئلہ ہے۔ خواجہ سرا کمیونٹی زیادہ عدم مساوات کا شکار ہے۔ خواجہ سرا سماج سے الگ تھلگ رہنے پر مجبور ہیں۔ یہی نہیں خواجہ سراؤں کو کمیونٹی کے اندر بھی استحصال کا سامنا رہتا ہے۔ غربت اور تنگ دستی کے باعث بھیک مانگنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ بھیک کی کمائی سے بھی انہیں گُرو کو حصہ دینا پڑتا ہے۔
سب سے بڑا ظلم کہ خواجہ سراؤں کے اپنے والدین، بہن بھائی اور رشتہ دار ان سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ جیسے انہوں نے خود خواجہ سرا بن کر کوئی جرم کیا ہو اور خواجہ سرا ہونا کوئی گناہ ہے۔ والدین یہ گھناؤنا عمل خواجہ سرا کی پیدائش ہوتے ہی کر گزرتے ہیں اور اس بات کو خفیہ رکھا جاتا ہے کہ ان کے ہاں خواجہ سرا بچے کی پیدائش ہوئی ہے۔ پیدا ہوتے ہی خواجہ سرا بچے کو گرو کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔
خواجہ سرا جو خوش قسمتی سے جوان ہو کر آشکار ہوئے۔ وہ پڑھ لکھ بھی گئے۔ اسلام آباد، کراچی اور لاہور سمیت کئی شہروں میں ایسے خواجہ سرا موجود ہیں جو پڑھے لکھے ہیں۔ جنہوں نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے جدوجہد کی ہے، جس سے کم ازکم ان کی ذاتی زندگیاں سہل ضرور ہوئی ہیں مگر بطور مجموعی کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ہے۔
معاشرہ میں ہر طبقہ خواجہ سراؤں کو اپنے تمام تر سماجی معاملات سے دور رکھتا ہے اور ہر مذہب میں خواجہ سراؤں کو اجازت نہیں ہے کہ عبادت خانوں میں داخل بھی ہو سکیں۔ خواجہ سراؤں کو انسان سمجھا ہی نہیں جاتا ہے۔ بے رحمی اور سفاکیت کا یہ عالم ہے کہ محلے میں کسی خواجہ سرا کی موت واقع ہوجائے تو معاشرہ کا کوئی فرد یہ نہیں سمجھتا ہے کہ کوئی انسان مر گیا ہے بلکہ بے حسی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ کھسرا مرا ہے۔
عمومی طور لوگ پوچھتے ہیں کہ خواجہ سرا فوت ہوجائے تو اس کو دفناتے کیسے ہیں۔ جنازہ کیسے پڑھتے ہیں۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زندہ جاگتے انسان معاشرے میں انسانوں کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ اس بے رحمی و سفاکی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی خواجہ سرا سے تعلق داری ظاہر نہیں کرنا چاہتا ہے۔ وہ خواجہ سرا کوئی رشتہ دار ہو۔ باپ ہو۔ ماں ہو، بھائی بہن ہو یا کوئی برادری یا قبیلے کا فرد نہیں چاہتا ہے کہ انہیں کوئی یہ کہے کہ یہ فلاں کی فیملی یا قبیلے سے ہے۔
ریاست اور سیاسی جماعتیں اور سیاسی گروپ خواجہ سراؤں کے حوالے سے جامع اور ٹھوس پالیسی بنائیں اور خواجہ سراوں کے بنیادی انسانی حقوق کو منشور کا حصہ بنایا جائے۔ مساوات پارٹی پاکستان نے درج ذیل پالیسی وضع کی ہے اور پالیسی کے نکات کو مساوات پارٹی کے منشور کا حصہ بھی بنایا ہے، جس کی تمام سیاسی پارٹیوں کو تقلید کرنے کی ضرورت ہے۔
زنخا، مخنث، زنانہ سمیت تمام ایسے افراد جو مختلف شناخت رکھتے ہیں۔ انہیں تمام تر بنیادی انسانی حقوق دینے کے لئے جامع اور ٹھوس قانون سازی کی جائے اور ان کے بہن بھائی یا رشتہ داروں کی بجائے وراثتی جائیداد کا حق دیا جائے۔ خواجہ سراؤں کو سماجی دھارے کا حصہ بنانے اور انسانی رشتے میں شامل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ریاست سنجیدگی سے اقدام کرے اور قانون سازی کی جائے کہ والدین خواجہ سرا بچے کی خود نگہداشت اور پرورش کریں۔ 18 سال تک والدین کی ذمہ داری ہے کہ خواجہ سرا کی تعلیم و تربیت سمیت تمام تر بنیادی انسانی حقوق پورے کریں۔
خواجہ سرا کو والدین کی وراثت میں حصہ دار بنا کر قانونی طور پر حق وراثت دیا جائے۔ خواجہ سرا کو پیدائش کے وقت یا آشکار ہونے پر گھر سے نکالنا سنگین جرم قرار دیکر سزاوں اور جرمانوں کا اطلاق کیا جائے۔ خواجہ سراؤں کے گرو کی ہر شہر میں رجسٹریشن کی جائے اور خواجہ سراؤں کی خرید و فروخت پر سخت پابندی عائد کی جائے۔
اٹھارہ سال کے بعد قومی شناختی کارڈ کے حامل خواجہ سرا کو فطری جبلت اور خاصیت کے مطابق جینے اور رہنے کا مکمل حق دیا جائے کہ اس کی مرضی ہے کہ وہ کیا شناخت اپناتا ہے۔ گرو کی منشا اور اجارہ داری کا مکمل خاتمہ کیا جائے تاکہ خواجہ سرا بھی ریاست کے کارآمد شہری کی حیثیت سے عام انسانوں کی طرح معاشرے کا حصہ بن کر اپنی زندگیاں گزار سکیں۔