کاش آپ بھی خواجہ سرا ہوتے

کاش آپ بھی خواجہ سرا ہوتے
میں اُسامہ کو کال پر تمام قصہ سُنانے ہی والا تھا کہ کنفیوژ اس بات پہ ہو گیا کہ جس کے بارے میں بات کرنے جا رہا ہوں اس کو مذکر کہوں یا مؤنث۔ یہ نالائقی بطور مجموعی اس معاشرے کا المیہ بن چکی ہے۔ خیر قصہ یہ ہے کہ اس نے بھی میری طرح اوپن ٹِکٹ لے رکھا تھا اور دروازے سے لپک کر گاڑی میں سوار ہو گئی۔ صبح کے سات بج چکے تھے اور ٹرین کے انجن نے چلنے کا اشارہ دے دیا تھا۔ وہ بھی اب ادھر اُدھر بیٹھے مسافروں کا جائزہ لے کر آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ کہیں وہ رُک جاتی اور کچھ دیر کھڑی رہتی۔ اس کی آنکھوں میں جو سوال تھا وہ ہم سب ہی جانتے تھے۔ ٹرین میں بیشتر نشستیں خالی جو تھیں، ہاں مگر وہ اس کے لئے نہیں تھیں۔

جگہ نہ ملنے پر وہ ٹہلتی ہوئی ڈبے کی دوسری نُکڑ پر جا پہنچی جہاں کچھ اوباش بابے سگریٹ پھونک رہے تھے۔ ایک بزرگ نے اُسے دیکھتے ہی گندی جُگت کرا دی۔ معاشرے کے ان رویوں کا اب وہ ویسا اثر نہیں لیتی تھی۔ اس نے بھی ہنستے ہوئے بات ٹالنے کی ناکام کوشش کی۔ ساتھ ہی کھڑے ایک اور بابے نے اُس کو چھوتے ہوئے ساتھ چلنے کی آفر کی جس پر اس نے بیزاری کا اظہار کیا۔ بزرگوں کے چہروں پر ایک خاص چمک والی خوشی واضح تھی۔ شاید ان کو اس سب سے خاص تسکین مل رہی تھی۔ بابوں نے ایک دوسرے کے کان میں باتیں کرنا شروع کر دیں۔ اس نے تنگ آ کر اس ڈبے سے فرار چاہا ہی تھا کہ دروازے میں اچانک کچھ پھنس گیا۔ دروازہ زور سے بند ہوا اور ساتھ ہی اس کی درد بھری چیخ کانوں سے ٹکرائی۔



دروازے میں آئی اس کی انگلی بُری طرح سے زخمی ہوچکی تھی۔ وہ درد سے یوں رو رہی تھی جیسے میں نے چھوٹے بچوں کو روتے دیکھا تھا۔ اس کے چہرے پر موٹے موٹے آنسوؤں اور بابوں کے قہقہوں کا امتزاج ایک عجیب سا ماحول پیدا کر چکا تھا۔ اس لمحے میں زندگی کی بہت بڑی حقیقت کا عکس پنہاں تھا۔ وہ یہ کہ ہمیں کسی کو تکلیف میں دیکھ کر ہنسنا ہی ہوتا ہے۔ آج کل یہی تو سب سے بڑی تفریح ہے۔ کون سُنتا اس کی وہ سسکیاں جو کچھ دیر میں خود ہی دم توڑ گئیں۔ چُپ تو کرنا ہی تھا۔ آخر یہ درد اس درد سے بڑا تو نہیں تھا کہ جس سرد رات اس پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ سنگدل باپ نے کس دل سے اپنی اولاد کا ہاتھ پکڑ کے اُسے گھسیٹ کر گھر کے مرکزی دروازے سے اُٹھا پھینکا ہوگا۔ جُرم صرف یہ کہ وہ خواجہ سرا ہے؟



ایسے بچوں کےماں باپ کس مٹی سے بنے ہوتے ہیں جن کو اپنی اولاد سے زیادہ اس ناک کی فکر ہوتی ہے جس کو معاشرے میں ان کو اونچا رکھنا ہوتا ہے۔ تکلیف سے چلاتے ہوئے اس خواجہ سرا کا خیال ذہن سے اوجھل ہونے کو ہی نہیں ہے۔ میرا ایک اور دوست علی جب مجھ سے یہ قصہ بیان کر رہا تھا تب سے وجود سوالوں سے خالی سا ہو گیا ہے۔ جیسے سب سوالوں کے جواب مل چکے ہوں اور اب کچھ بھی کہنے سُننے کو باقی نہیں رہا۔

ہماری گفتگو میں معاشرے کا ایک انتہائی اہم کردار 'جوکر' بھی زیر بحث آیا۔ ایک ایسا کردار جس کی تشریح، تشکیل اور باقی عوامل تمام معاشروں میں ایک ہی جیسے ہیں۔ ہر دُکھ جھیل کر بھی چہرے پر مُسکراہٹ اس کے کردار کا وہ واحد تقاضہ ہوتا ہے جس کے بغیر اس کردار کی تشکیل مکمل ہی نہیں ہوتی۔ میں اس کردار کی مدد سے معاشرے کی مظلومیت کو بہتر محسوس کر پاتا ہوں۔ آنسوؤں کو روکے رکھنا، چہرے پر مسکراہٹ پھیلائے رکھنا، کیا عجب کھیل ہے۔



علیشہ کو بھی درندوں نے اپنی تسکین کے لئے تب تک استعمال کیا تھا جب تک اس انسان نما شے کی درندہ صفت انسانوں کو ضرورت تھی۔ اس نے بھی اس معاشرے کی خوشی کی خاطر خود کے آنسو روک رکھے ہونگے۔ پھر کیا۔۔ مرتی ہوئی علیشہ کو پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے استقبالیے پر تڑپتے دیکھا گیا۔ اس کو گولیاں ماری گئی تھیں۔ دنیا میں کسی نے اس کا کوئی احساس نہ کیا، اور وہ خدا کے پاس چُپ چاپ لوٹ گئی۔ کیسا شکوہ، کیسی شکایت، وہ بھی خُدا سے؟ وہ تو میں کہوں کہ ایسی علیشاؤں کی تو پیدا ہوتے ہی سانس کھینچ لینی چاہیے جن کی زندگی میں ایک بھی روز تکلیف سے خالی نہیں ہوتا۔

جیولی بھی تو کم نہ تڑپی تھی کہ جب اس کو اس کی دوست کے ساتھ رات بھر جنسی درندگی کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ ساری رات اسلحے کے زور پر نچایا گیا۔ صبح ہوتے ہی نیم مُردہ حالت میں پاؤں کو ہاتھ لگوا کر شکریہ ادا کروایا گیا کہ مار نہیں دیا گیا، زندہ چھوڑا جارہا ہے۔ جیولی آج بھی وہ لمحے یاد کرتی ہے تو درد سے تڑپ اُٹھتی ہے۔ مزید اس درد کو کیا لکھوں؟ معلوم ہے کہ اگلے ہی لمحے ان آہوں اور سسکیوں کو یکسر بھلا دیا جائے گا۔



کاش آپ بھی ایک خواجہ سرا ہوتے۔۔۔ بُرا لگا؟ درد ہوا؟ مجھے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا؟ کیا یہ بددعا تھی؟ اب آپ بطور خواجہ سرا اس درد کی اہمیت کو زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہوں گے۔ اُس خواجہ سرا کا درد جس نے اپنے آٹھ سال کی عمر میں گھر سے نکالے جانے کا درد یوں سُنایا اور آنسو بھری آنکھوں کو جھپک کر بولی کہ کاش ہم کُتے پیدا ہوئے ہوتے، ماں کے پیار سے یوں محروم تو نہ کیے جاتے۔ درد سے دل بند ہونے کو تھا کہ اس نے خود ہی آنسو پونچھے اور چہرے پہ ایک اجنبی سی مسکراہٹ بکھیر لی۔

سلمان درانی لاہور میں مقیم صحافی ہیں۔ بیشتر قومی اخبارات، اور آن لائن آؤٹ لیٹس پر رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل @durraniviews ہے۔