Get Alerts

خیبر پختونخوا؛ پی ٹی آئی حکومت عوامی مسائل پر کب توجہ دے گی؟

خیبر پختونخوا حکومت کو فوری طور پر اپنی ترجیحات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عوامی وسائل کو سیاسی مقاصد کے بجائے عوامی فلاح و بہبود اور تحفظ پر خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے اغوا کے واقعات کے خلاف مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔

خیبر پختونخوا؛ پی ٹی آئی حکومت عوامی مسائل پر کب توجہ دے گی؟

خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی توجہ عوامی فلاح و بہبود کے بجائے سیاسی مقاصد پر مرکوز ہے۔ ان کی کوششیں عمران خان کو دوبارہ وزیر اعظم بنانے پر مرکوز ہیں، جس کے نتیجے میں عوامی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ حکومتی مشینری کو جلسے جلوسوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جبکہ عوامی مسائل، جیسے مہنگائی اور امن و امان کی بگڑتی صورت حال، نظرانداز کیے جا رہے ہیں۔

صوبے میں بدامنی اور لاقانونیت کا بڑھتا ہوا عفریت، خاص طور پر بچوں کے اغوا کے واقعات نے والدین میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔ پشاور کے مختلف علاقوں سے بچوں اور نوجوانوں کے غائب ہونے کے واقعات میں تشویش ناک اضافہ ہوا ہے، جس میں پولیس کی ناکامی اور غیر مؤثر اقدامات نمایاں ہیں۔

پشاور میں یکہ توت، نشتر آباد، فقیر آباد، باڑہ گیٹ، سواتی پھاٹک، کوہاٹ روڈ، تاج آباد، نوتھیہ، اور خیبر کالونی جیسے علاقوں میں 12 سے 18 سال کی عمر کے بچوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ صرف ایک ماہ کے اندر 20 سے زیادہ بچے غائب ہو چکے ہیں، اور ان کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات موجود نہیں ہیں۔ والدین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، جبکہ پولیس کی طرف سے کوئی مؤثر کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے حالات مزید بگڑتے جا رہے ہیں۔

لکی مروت جیسے علاقوں میں جب صوبائی حکومت نے فوج کو طلب کیا تو یہ واضح ہو گیا کہ وہ حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ پشاور کے حالات بھی اسی سمت بڑھ رہے ہیں، جہاں عوام کی حفاظت کی ضمانت دینے والی پولیس سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہے، جس کے باعث ان کی بنیادی ذمہ داریاں متاثر ہو رہی ہیں۔

حکومت کی اس ناکامی کی عکاسی پشاور میں بچوں کے اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات کر رہے ہیں۔ عوامی تحفظ کو اولین ترجیح دینے کے بجائے حکومت کی توجہ سیاسی سرگرمیوں پر مرکوز ہے۔ اگر فوری طور پر اقدامات نہ کیے گئے تو عوام میں مایوسی اور بے اعتمادی کی کیفیت بڑھے گی، جو حکومتی نظام کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

خیبر پختونخوا کی حکومت کو فوری طور پر اپنی ترجیحات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عوامی وسائل کو سیاسی مقاصد کے بجائے عوامی فلاح و بہبود اور تحفظ پر خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے اغوا کے واقعات کے خلاف مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر صوبائی حکومت نے عوام کے تحفظ اور فلاح و بہبود کو ترجیح نہ دی تو یہ حکومتی ساکھ کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں میڈیا سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔