اضافی نمبر دینے کا کیس: سپریم کورٹ نےجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ازخودنوٹس کو ختم کردیا

اضافی نمبر دینے کا کیس: سپریم کورٹ نےجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ازخودنوٹس کو ختم کردیا
سپریم کورٹ کے چھ رکنی لارجر بینچ  نے حافظ قرآن کو 20 اضافی نمبر دینے کا ازخود نوٹس کیس 5 منٹ میں نمٹا دیا۔

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے آرٹیکل 184 (3) کے تحت تمام از خود نوٹسز کی کارروائی ملتوی کرنے کے حکم کا جائزہ لینے کے لیے آج لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کے 6 رکنی لارجر بینچ نے حافظ قرآن کو 20 اضافی نمبروں پر سپریم کورٹ ازخودنوٹس کی سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 6 رکنی  بینچ میں جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے۔

پی ایم ڈی سی کے وکیل افنان کنڈی عدالت میں پیش ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ 20 اضافی نمبر 2018  تک رولز کے تحت دیے جاتے تھے۔ 2021 میں نئے رولز بنے اور  اضافی نمبر ختم ہوگئے۔20 اضافی نمبرکا معاملہ عملی طور پر ختم ہوچکا ہے۔

وکیل پی ایم ڈی سی نےمزید  کہاکہ جب ازخودنوٹس لیا گیا  تب بھی حافظ قرآن کو 20 اضافی نمبرز نہیں دیئے جاتے۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ ازخود نوٹس 2022 میں لیا گیا۔ 2021 کے رولز کے بعد ازخودنوٹس ویسے ہی غیر موثر ہو گیا۔

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ازخودنوٹس کو ختم کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ازخودنوٹس غیر موثر ہونے پر نمٹایا جاتاہے۔

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے حافظ قرآن کو 20نمبر دینے کے ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ ایک دو کے تناسب سے جاری کیا ۔جسٹس شاہد وحید نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ رولز بنائے جانے تک آرٹیکل 184تھری کے تمام کیسز کو ملتوی کیا جائے۔اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ چیف جسٹس اور دیگر تمام ججز پر مشتمل ہوتی ہے، سپریم کورٹ کے پاس اپنے رولز بنانے کا اختیار ہے۔سپریم کورٹ رولز میں چیف جسٹس پاکستان کو خصوصی بنچ بنانے کا اختیار نہیں ہے. سپیشل بنچ میں مختلف بنچز سے ایک ایک جج کو شامل کیا گیا۔

اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان کے عوام، ارکان پارلیمنٹ کے انتخاب کے وقت ان کا احتساب کرتے ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ الیکشن میں عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں۔عدلیہ اس طرح کسی کو بھی جوابدہ نہیں ہے۔  چیف جسٹس کے پاس اختیار نہیں کہ بنچ تشکیل کے بعد کسی جج کو بنچ سے الگ کریں۔

دوسری جانب سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے ہیں کہ سپریم کورٹ کے انتظامی مسائل کو اندورنی معاملہ کہا تھا۔اپنے اختلافی نوٹ پر قائم ہوں۔انتخابات از خود نوٹس کیس فیصلہ چار،تین سے ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے نے از خود نوٹس کو مسترد کر دیا تھا۔اکثریتی ججز کے مطابق انتخابات کا حکم نہیں دیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات کیلئے کیسے مشاورت کی؟صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیسے کر دیا؟ سپریم کورٹ کا آرڈر آف دا کورٹ چار ججز کا فیصلہ ہے۔

علاوہ ازیں، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184/3 کے مقدمات پر سرکلر جاری کیا تھا۔ سرکلر کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے میں ازخودنوٹس کا اختیار استعمال کیا گیا۔ اس انداز میں بینچ کا سوموٹو لینا 5 رکنی عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔

سرکلر کے مطابق اس انداز میں بینچ کا سوموٹو لینا 5 رکنی عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے. سوموٹو صرف چیف جسٹس آف پاکستان ہی لے سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے سرکلر میں کہا گیا کہ فیصلے میں دی گئی آبزرویشن کومسترد کیا جاتا ہے. آرٹیکل 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کا حکم لارجر بینچ پر لاگو نہیں ہوتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان کا فیصلہ دیگر بینچز پر لاگو نہیں ہوتا. حافظ قرآن کو 20 اضافی نمبر دینے کے کیس میں درخواست سے ہٹ کر فیصلہ دیا گیا۔

سرکلر میں مزید کہا گیا کہ حافظ قرآن کو 20 اضافی نمبر دینے کے کیس میں از خود نوٹس کی کارروائی کی گئی جو غیر قانونی ہے. جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین کا فیصلہ دو ایک کے تناسب سے ہے۔

سرکلر کے مطابق پانچ رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس کے از خود نوٹس لینے کا اختیار واضح کر چکا ہے. رجسٹرار سپریم کورٹ کو سرکلر سے متعلق کیس کے فریقین کو آگاہ کرنے کا کہا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ حافظ قرآن کو 20 اضافی نمبر دینے کے کیس کا فیصلہ مسترد کیا جاتا ہے۔