قیس ابن الملوح ابن مزاحم جو پہلے 'لیلیٰ_مجنوں' یعنی 'لیلیٰ کا دیوانہ' کے نام سے مشہور تھا اور پھر 'مجنوں' یعنی دیوانہ اور پاگل کے نام سے مشہور ہوا۔
'مجنوں' کا نام پہلی بار میرے کانوں تک تب پہنچا تھا جب میں اپنے سکول کی ایک تقریب میں کسی کو مجنوں کا کردار ڈھلتے ہوئے اور پاگل پن میں خود کلامی کرتے دیکھ کر بور ہو رہی تھی۔ اچانک مجنوں خود کلامی میں مگن ہوئے ایک شخص کے سامنے آ گیا جو صحرا میں نماز کی ادائیگی میں مصروف تھا۔ وہ شخص مجنوں پر نہ صرف ناراض ہوا بلکہ غصے میں اسے تھپڑ بھی دے مارا۔ مجنوں نے جب اس تھپڑ کی وجہ جانی تو اس شخص نے مجنوں کو اپنے خدا کی عبادت سے توجہ ہٹانے کا الزام لگا دیا۔ اپنی صفائی میں مجنوں بھی بول پڑا۔ "میری کیفیت ایسی ہے کہ میں اس مادّی دنیا کو بالکل فراموش کر چکا ہوں۔ مجھے یہ تک نہیں پتہ کہ میں کہاں سے آ رہا ہوں اور کہاں جا رہا ہوں۔ میں اپنی محبت میں اتنا ڈوبا ہوا ہوں کہ مجھے ارد گرد کا کوئی ہوش نہیں اور میں اس مادّی دنیا کو نہیں دیکھ سکتا۔"
مجنوں کے الفاظ نے اس شخص کو حیران کر دیا۔ وہ اسی حیرانگی میں ہی تھا کہ مجنوں نے اس سے ایک سوال پوچھا۔ "میں تو لیلیٰ کی محبت میں اس دنیا سے بے گانہ ہو چکا ہوں اس لئے مجھے خبر ہی نہیں ہوئی کہ تم نماز پڑھ رہے ہو۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب تم اللہ کی محبت میں اس کی عبادت کر رہے تھے تو تمہیں کیسے پتہ چل گیا کہ میں تمہارے سامنے سے گزرا ہوں۔ اللہ کے لئے نماز پڑھنی ہے تو ڈوب کر پڑھو۔ بالکل اسی طرح جیسے میں لیلیٰ میں ڈوبا ہوا ہوں۔" مجنوں کے ان الفاظ سے اس شخص پر ایسا اثر ہوا کہ بے ساختہ بول پڑا۔ "میں واقعی غلطی پر تھا۔ تم واقعی صحرا کے ہیرو ہو۔ تم نے مجھے اللہ کا صحیح راستہ دکھایا ہے۔ تمہاری محبت کے سامنے میری نماز واقعی ایک دکھاوا ہے۔"
میرے سکول کے ان دونوں ساتھیوں نے نہ صرف اچھی پرفارمنس دکھائی بلکہ میرے اندر مجنوں کے وہ الفاظ سما دیے۔ جس نے ہم سب کو 'حقیقی عبادت' کے معنی سمجھا دیے۔
میں قصہ لیلیٰ مجنوں کی کہانی سے مزید واقف تب تک نہ تھی جب تک میں نے بنا دلچسپی رکھتے امتیاز علی کی خوبصورت رسم الخط سے بھرپور وہ مووی صرف گھر والوں کے ساتھ اچھا وقت گزارنے کے ارادے دیکھ لی، ان کے ساتھ بیٹھے بیٹھے اور مجنوں کی حرکتوں پر ہنستے ہنستے کب مجھے اس کردار سے ایک چمکتی چیز، ابھرتی خوبی نظر آنے لگی جسے میں نے 'سچائی' کا نام دے دیا۔ اس کی شدت، اس کی گہرائی سے مجھے ایک والہانہ دلچسپی ہونے لگی اور جب میں نے مجنوں کو مزید پڑھا تو مجھے اس سے سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔
اس نے خود کو فنا کر دیا، خود کا مذاق بنا دیا۔ ہر چیز سے لاتعلقی قائم کر لی مگر لیلیٰ سے ایک لمحے کے لئے بھی جدا نہ ہو پایا۔ اس کو ہر جگہ تلاش کرنا شروع کر دیا۔ اس نے ہمیں 'جدوجہد' کا اصلی مطلب بھی واضح کر کے سمجھا دیا۔
اس نے خود کو کھویا اور فقط اسے پایا۔ خود میں جس کی محبت خصوصاً فراق نے اسے ہر قسم کی دنیاوی ضرورت اور قید و بند سے آزاد کر دیا تھا۔ جو عام انسان کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے۔ کوئی خدا کی اپنے بندوں سے بے پناہ محبت کے بدلے میں بھی یہ نہیں کر پاتا۔ انہیں دنیا کی ہوس نے اپنا غلام بنا دیا ہوتا ہے۔ تاہم مجنوں ہمیں 'حقیقی محبت' کا بھی درس دیتا ہے۔
لیلیٰ اور مجنوں کی داستان تو ایک ہے جس کا نام محبت ہے لیکن ان کے حالات و واقعات نے ہمیں حقیقی عبادت، سچائی، جدوجہد، حقیقی محبت اور دل کی پاکیزگی کا درس دیا ہے۔
ایک عرب سرکار کا بیٹا اور قبیلے کا ولی عہد، محبت میں ڈوب کر خاک نشین تو ہوا لیکن قیامت تک کے لئے محبت، چاہت اور دیوانگی کی ایک ایسی علامت بن گیا جو انمول، بے مثال، منفرد اور یکتا ہے۔
عروسہ ایمان ایل ایل بی کی شاگر کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اپنے احساسات و جذبات کو الفاظوں میں قید کرنے کا مقصد صرف اور صرف معاشرے میں بڑھتے تنازعہ اور مرد و خواتین کے درمیان امتیازی سلوک کو ختم کرنے کی ایک بہت سی چھوٹی کوشش ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ کچھ نا کر سکو تو دل میں ہی بری چیز اور کسی برے عمل کو برا کہو۔ تو بس یہ الفاظوں کی جنگ کا یہی مقصد ہے۔