ریاست کا جسم
دن بھر کی نوکری کی تھکن ختم کرنے کے ارادے سے سوچا،،، کچھ کام کیا جائے
آفس سے نکلا، پنجاب یونیورسٹی کے باہر جا کھڑا ہوا ،، اور
اورچند مہینوں سے یونیورسٹی کی نئی ہمسائی شمیم اختر کا انتظار کرنے لگا
ایک چنک چی رکشہ ،،، میرا پاس آ کر رکا اور
دو مسکراتی آنکھوں نے ،،، مصنوعی ناراضگی سے خاموش سلام کیا
"بابو ، آج پھر باتوں کا دھندا کرنے آ گئے ہو "
یہ کہتے ہوئے وہ بنچ پر بیٹھی تو میں بھی وہی دھڑام ہو گیا
چھیمو ،آج لیٹ ہو گئی ؟خیریت تو تھی؟میں نے بات شروع کرنے کا بہانہ بنایا
" طوائف کی زندگی میں خیریت اس دن آتی ہے جب سانسیں رخصت ہو جائیں " چھیمو نے نقاب کھولتے ہوئے کہا
"اگر اتنا مشکل ہے تو چھوڑ کیوں نہیں دیتی "میں نے بات بڑھائی
" جب کوئی گدھ ہو جائے تو پھریہی کام بچتا ہے "یہ بات کرتے ہوئے اس نے مجھ سے منہ موڑ لیا
بات بڑھتی گئی اور چھیمو اپنے زندگی کے خاموش دریچے ،،، تھوڑے تھوڑے مجھ پر کھولتی رہی
سامنے سے نئی ہنڈا سٹی کے لائٹس نے اسکے چہرے پر جونہی روشنی بکھیرتو ،،،
"بابو اگر تمھارا دھندا ختم ہو گیا تو میں اپنا کام شروع کر لوں ؟"اسکی مسکراہٹ میں شرارت بھی نمایاں تھی
"کوئی اپنے جیسی قاتل لائن ہی دے دو ، کہ میری کہانی دو چار چاند لگ جائیں "
میں نے اپنے پیپرز اکٹھے کرتے ہوئے اس سے دبی آواز میں مطالبہ کیا
" جب عورت دھندا کرتی ہے تو،،، جسم،، ریاست ہوتا ہے"
یہ کہتے ہوئے وہ اپنے کام کو نکل گئی اور میں کہانی کے مکمل ہونے کی خوشی کو سمیٹتے ہوئے گھر کو نکل گیا