عمران خان نے کابینہ کے ارکان کو اگلے تین ماہ تک اسلام آباد نہ چھوڑنے کی ہدایت کی ہے۔ ہز ماسٹرز وائس، چوہدری فواد حسین نے بڑے بھولے سے لہجے میں کہا کہ اس اقدام کا مقصد سادگی کو رواج دینا ہے۔
یہ وہ شخص ہے جس نے حال ہی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے استدعا کی کہ اسے توہین کے الزام سے معافی دی جائے کیونکہ وہ کابینہ کا حقیقی ترجمان ہے۔
دراصل عمران خان کو خوف ہے کہ اُنھیں چلتا کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا جانے والا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ تمام حکومتی عہدیدار اس چیلنج کا سامنا کریں۔ لیکن کھیل ان کے ہاتھوں سے اس سے کہیں تیزی سے نکل رہا ہے جتنا کہ زیادہ تر لوگ کچھ مہینے پہلے پیش گوئی کر سکتے تھے۔ خطرے کی علامتیں گہری ہوتی جا رہی ہیں۔
گذشتہ ماہ، عمران خان نے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کا ایک بار پھر دامن تھامنے کی کوشش کی۔ جنرل فیض حمید عمران خان کو عہدے پر فائز کرنے کے منصوبے کے معمار ہی نہیں، ان کے اقتدار کو تین سال سے سہارا بھی دیے ہوئے تھے۔
تاہم اسیٹبلشمنٹ کے ادارہ جاتی دباؤ کے سامنے اب عمران خان کی کوشش ناکام ثابت ہوئی۔ درحقیقت تحریک انصاف پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں اکثریت حاصل نہیں کر سکتی تھی اگر چیف آف آرمی سٹاف، جنرل قمر جاوید باجوہ عین وقت پرہاتھ نہ دکھاتے۔
حکومت اسی طرح کے ایک اور مسئلے سے دوچار ہو چکی تھی۔ اگر جنرل باجوہ تحریک لبیک پاکستان کا اشتعال ٹھنڈا کرنے اور پیچھے ہٹنے کے لیے قدم نہ اٹھاتے۔ اس طرح کی دست گیری مزید کب تک دستیاب رہے گی یہاں تک کہ اسٹیبلشمنٹ ناطہ توڑتے ہوئے دوسرے قابل اعتماد آپشنز کی طرف دیکھنے لگے؟ کچھ نوشتہ دیوار واضح ہیں۔
بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے اور مہنگائی میں ہونے والے ہوشربا اضافے پر کراچی اسٹاک مارکیٹ نے شدید ردعمل ظاہر کیا اور اس کے 2000 پوائنٹ گر گئے۔ آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو قبول کرتے ہوئے وزارت خزانہ کے تازہ ترین یوٹرن کا مطلب ہے کہ تھوڑی سی نمو کے بعد دوبارہ بریک لگ گئی ہے۔
ٹیکس میں چھوٹ اور سبسڈی ختم کرنے، یوٹیلیٹی نرخ اور پراپرٹی ٹیکس میں اضافہ، ترقی اور غربت کے خاتمے پر اخراجات میں کمی وغیرہ کے نئے بجٹ کا اعلان جلد کیا جانا ہے۔ ہمیں توقع کرنی چاہیے کہ تمام شعبوں میں احتجاج حکومت کا گھیراؤ کرے گا۔
پارلیمانی اپوزیشن نے قومی سلامتی پر بریفنگ میں نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان بریفنگ پر دلچسپی اتنی کم ہوتی جارہی ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے مشیر برائے قومی سلامتی، معید یوسف سے کہا ہے کہ وہ یہ بریفنگ دے دیا کریں۔ اب معید یوسف تو کوئی سیاسی سرمایہ نہیں رکھتے۔”متعلقہ حکام“ کے دنیا بھر میں ادھر اُدھر کے دورے کرنے کے باوجود نیشنل سکیورٹی کے حالات خراب ہیں۔
کابل نے تحریک طالبان پاکستان پر قابو پانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ صدر بائیڈن ابھی تک عمران خان کے ساتھ بات کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ریاض نے تاخیر سے اور بادل نخواستہ اور وہ بھی غیر معمولی سخت شرائط پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو تین بلین ڈالر دینے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔
اس رقم کو حکومت کی مالی اعانت کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، اسے 72 گھنٹے کے نوٹس پر نکالا جا سکتا ہے، یہ بھاری شرح سود پر ملی ہے، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، اے ڈی بی جیسے کسی بھی بین الاقوامی ادارے کے ساتھ کسی بھی مالیاتی وعدے پر پاکستان کی طرف سے ڈیفالٹ سعودی معاہدے پر ڈیفالٹ تصور کیا جائے گا۔
تمام تنازعات سعودی عرب کی عدالتوں میں طے کیے جائیں گے۔ نادہندہ ہونے کی صورت میں ریاض دنیا میں کہیں بھی کوئی بھی پاکستانی اثاثہ ضبط کر سکتا ہے۔ یہ سب اس لیے ہوا کیوں کہ عمران خان نے سعودی عرب کی سربراہی میں او آئی سی کی بالادستی کو چیلنج کرنے کے لیے ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ حریف کیمپ قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ پرنس محمد بن سلمان اس پر برہم ہوگئے تھے۔
اب قومی سلامتی کو نیا چیلنج درپیش ہے جو ہماری خارجہ پالیسی کے امکانات کو بے نقاب کر سکتا ہے۔ اگر ہندوستان، روس، ایران اور چین کابل حکومت کو تسلیم کرلیں اور امریکی قیادت میں مغربی بلاک (بشمول سعودی عرب جیسے مشرق وسطیٰ میں اس کے شراکت دار) اسے مسترد کر دے تو پاکستان کا کیا موقف ہوگا؟ جبکہ پاکستان کی تجارت اور امداد اسی بلاک پر انحصار کرتی ہے۔
چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ نے پاکستان کی قومی سلامتی کے نقطہ نظر کو ”جیو اسٹریٹجی” سے ”جیو اکنامکس” کی طرف تبدیل کرنے پر زور دیا ہے، جس میں ہندوستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا اور مغربی بلاک کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنا شامل ہے۔ لیکن اس ضمن میں ابھی کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی کیوں کہ عمران خان عقیدے کی اس یک لخت تبدیلی پر سیاسی ردعمل سے خائف ہیں۔
اب تحریک انصاف کی حکومت متعصبانہ سیاسی فائدے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور اعلیٰ عدلیہ سے الجھی ہوئی ہے۔ اس نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف بھرپور مہم شروع کررکھی ہے۔
اب یہ دھمکی دی جا رہی ہے کہ اگر وہ آنے والے بلدیاتی انتخابات اور عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر راضی نہ ہوا تو اس کی فنڈنگ روک لی جائے گی۔
الیکشن کمیشن نے ردعمل کے طور پر تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کی سکروٹنی کمیٹی کو کام تیز کرنے کا کہا ہے۔ اس نے پہلے ہی ڈسکہ ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کی پنجاب حکومت پر سنگین بددیانتی کا الزام عائد کیا ہے۔ وہ پی ٹی آئی کے بدزبان فیصل واوڈا کو انتخابی فارم میں جان بوجھ کر غلط بیانی سے کام لینے پر نااہل قرار دینے کے لیے کمر کس چکا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے لیے بھی تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ تعاون کرتے رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ نواز شریف اور مریم شریف کے خلاف مقدمات اور سزاؤں پر حالات کے تیور بدل رہے ہیں کیونکہ نئے انکشافات نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور آصف کھوسہ کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔
آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر ہائیکورٹ کے جج یکے بعد دیگرے ایگزیکٹو سے علیحدگی کا دعویٰ کرنے پر مائل ہیں۔ ججوں نے بالآخر تمام صوبوں میں جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم دے دیا ہے۔ تحریک انصاف اس کی مخالفت کرتی ہے کیونکہ جانتی ہے کہ وہ ہار جائے گی۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس کے ذریعے حال ہی میں نافذ کیے گئے کچھ قوانین کو بھی آئینی طور پر چیلنج کیے جانے کا امکان ہے۔ اور ضروری نہیں کہ یہ چیلنج اپنا ہدف حاصل نہ کرسکے۔
عمران خان کسی وجہ سے ہی اگلے تین ماہ کے لیے بے چین ہیں۔ لندن میں گورنر پنجاب چوہدری سرور اپنی حکمران جماعت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اُنھوں نے راز کھولا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی حمایت کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ”جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے“ تو یہی مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔
نجم سیٹھی پاکستان کے مانے ہوئے صحافی و تجزیہ کار ہیں۔ وہ انگریزی ہفت نامے دی فرائیڈے ٹائمز کے مدیر، وین گارڈ پبلیشرز سے چیف ایگزیکٹو ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔