16 دسمبر 1971؛ بنگال سے پاکستان آئی بہاری کمیونٹی کا درد کون سمجھے گا؟

صنفی تشدد کے خلاف مزاحمت کے 16 دن میں کئی برسوں سے منا رہی ہوں اور کئی بار کچھ نامور ایکٹیوسٹ خواتین سے منّت تک کی کہ ایک موم بتی میری کمیونٹی کے شہیدوں کے لئے جلا لیں، فاتحہ پڑھ لیں اور بھلا دی جانے والی بہاری خواتین کے ساتھ جو جنسی اور صنفی تشدد ہوا، اس کی بھی مذمت کر لیں، محاسبے کا مطالبہ کریں مگر کچھ شنوائی نہ ہوئی۔

16 دسمبر 1971؛ بنگال سے پاکستان آئی بہاری کمیونٹی کا درد کون سمجھے گا؟

16 دسمبر 1971 کیلنڈر کا ایک دن ہی تو ہے۔ 2023 میں بھی یہ دن آئے گا اور گزر جائے گا۔ شاید چند اخباروں میں پی ایچ ڈی اور ایم فل یا ایم اے کے سٹوڈنٹس کو بحالت مجبوری کوئی کالم یا بلاگ لکھنا ہو تو 1971 کے حوالے سے کوئی اشاعت نظر آجائے گی۔ اس میں بھی زیادہ فوکس بنگلہ دیش کے بنانے والوں پر ہوگا نا کہ قائد اعظم کے پاکستان کے ٹوٹنے کا ماتم یا تھوڑا سا بھی افسوس۔ ان کے لیے جو مٹی کی محبّت میں ڈٹ گئے تھے اور برباد ہوئے، ان کے لیے ایک لفظ بھی نہیں۔

اگر میرے جیسوں کا کوئی اظہاریہ ہو بھی، یا تو وہ مین سٹریم میڈیا کے قابل نہیں گردانا جاتا اور اگر چند باضمیر یا دلیر سٹیزن پورٹلز پر تھوڑی سی جگہ مل بھی جائے تو اثرانداز ہونے والے اس کو بخیر و خوبی بلکہ نہایت خوش اسلوبی سے نظرانداز کر دیتے ہیں۔ پھر کئی اور عوامل بھی ہیں جن کا ذکر تو درکنار، ان سے متعلق سوچنا بھی خوفناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اپنی کھال بچانا ہی دانشمندی ہے، خاص طور پر ہمارے جیسے لوگوں کے لیے جن کے طرف دار سخن فہم بھی نہیں۔

انسانی حقوق بشمول نسائی حقوق کی بھی پرفریب سیاست ہے، کس کس کا رونا رویا جائے، کس کس کی دھوکے بازی کو قلمبند کروں اور کن کن بازی گروں پر تبرا کیا جائے؟ کوئی فورم نہیں ہے، نہ سیاسی نہ سماجی، بے شمار فنڈڈ ادبی فیسٹیولز اور تہواروں میں بھی اس المیے پر بات نہیں ہوتی اور یہ خود بھی ایک الگ المیہ ہے۔ پاکستان کی نئی نسل کے لیے 1971 شاید ایک معما ہو یا شاید کچھ بھی نہیں۔

فیمینزم میرا سبجیکٹ ہے۔ 30 سال سے زائد عرصہ ہونے کو آ رہا ہے میں صنفی امور خاص طور پر صنفی تشدد کے حوالوں سے کام کر رہی ہوں۔ پاکستان کی نامور اور طبقہ اشرافیہ سے کئی فیمینسٹ خواتین اور چند فیمینسٹ مردوں کی سقوط ڈھاکہ (بلکہ ان کے سامنے یہ بول کر دیکھیں اور جوابی فائر کے لیے تیار ہو جائیں وہ صرف لبریشن یا فریڈم یا آزادی بنگلہ دیش جیسی تشریح اور ترکیب کو سننے پر راضی ہیں) پر معنی خیز خاموشی پر بہت جھنجھلائی ہوں، روئی ہوں مگر کوئی ہم نوا نہیں بنا۔ بہت اچھے اور ستھرے ناموں نے بھی اس ایشو پر ساتھ دینے سے کوئی نہ کوئی لاجک تراش کر معذرت کر لی۔

ریپ ہو جانے والی بہاری خواتین اور ان کی چھاتیوں کو کاٹ دینے کی تفصیل یا تذکرہ غیر ملکی اخباروں کے آرکائیوز میں تو مل سکتا ہے مگر پاکستانی عورت کی مظلومیت پر فنڈز لینے والے غیر سرکاری فورمز اور سرکار کی کسی منسٹری میں نہیں ملے گا۔ پاکستان کے کسی انسانی حقوق، بچوں کے حقوق اور عورتوں کے حقوق والے کمیشنز میں جن کی پولیٹیکل پوسٹنگز سے سب واقف ہیں، ہماری بہاری کمیونٹی کے بچوں، بچیوں، عورتوں، بوڑھوں اور مردوں کے ساتھ ہونے والے دردناک سلوک کا تذکرہ تک نہیں ہوتا۔

صنفی تشدد کے خلاف مزاحمت کے 16 دن میں کئی برسوں سے منا رہی ہوں اور کئی بار کچھ نامور ایکٹیوسٹ خواتین سے منّت تک کی کہ ایک موم بتی میری کمیونٹی کے شہیدوں کے لئے جلا لیں، فاتحہ پڑھ لیں اور بھلا دی جانے والی بہاری خواتین کے ساتھ جو جنسی اور صنفی تشدد ہوا، اس کی بھی مذمت کر لیں، محاسبے کا مطالبہ کریں مگر کچھ شنوائی نہ ہوئی۔ میں نے جو گہرے گھاؤ کھائے ہیں ان کا واویلا کیا کرنا!

خود مہاجروں کو اور زیادہ تر بہاریوں کو بھی ذلّت کی کربناک زیست سہنے والوں سے کوئی خاص اُنسیت نہیں۔ انڈیا کے مسلمان اپنی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ بنگلہ دیش میں نام نہاد کیمپس جو درحقیقت انسانی حقوق کے خلاف ایک لائیو ایف آئی آر ہیں، کے باہر مقیم چند بہاری خاندانوں کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ حکومتوں کے اعتاب کون بھگتے؟ اور زیادہ پریکٹیکل بات یہ ہے کہ کیوں بھگتیں؟ پاکستان کے نام پر اس کی محبّت میں کیوں سولی پر چڑھائے جائیں؟ اور پاکستان کی کیفیات اور احساسات تو طلسم ہوشربا ہیں۔

یہاں کسی کو بھی ہماری اس تکلیف کا ہلکا سا بھی احساس نہیں تو قدر کیا کرنی؟ ہم جیسے کہیں نہیں۔ ہمارا کوٹہ ہے اور نہ ٹہکا۔ ہمارے نام پر مفاد پرست سیاست کرنے والے اور ہم میں سے کچھ جو طبقہ اشرافیہ میں شامل ہونے کے بعد آج تک محب وطن محصور بہاریوں کے حقوق کے لئے ان کی حق تلفیوں کے حوالے سے اور پاکستان میں موجود اردو بولنے والے غیر پنجابی مہاجروں کے لیے جن کو ہندوستانی بھی کہا جاتا ہے، کچھ نہیں بولے۔

نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے

منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

یہ اذیت ناک تماشہ جس کو بدیانتی، بے حسی، بے شرمی اور بدنیتی سے بُنا گیا ہے، اسے دیکھتے دیکھتے میری عمر بیت گئی۔ روح تک گھائل ہو گئی۔ جانتی ہوں کہ میرے ان لفظوں سے کوئی متوجہ نہیں ہو گا۔ میری کمیونٹی کی چوتھی یا پانچویں نسل بھی بنگلہ دیش میں پارہ پارہ دل اور ریزہ ریزہ شناخت کے ساتھ گردش رنگ چمن کو خاموشی سے دیکھتی رہے گی۔ بزرگ یہ کہہ کر چلے گئے کہ خدا سے پوچھیں گے۔ نوجوان کبھی کسی ڈونر فنڈڈ این جی او یا فلم پروجیکٹ کے لیے سبجیکٹ یا کی انفورمنٹ بن جاتے ہیں یا استحصالی شرائط کے ساتھ مزدوری کرتے رہیں گے۔

ان بے نوا لوگوں کی آواز نہ تو انسانی حقوق کے حامی نامور فیمینسٹس بنیں گے، نہ بے دھڑک صحافی، نہ اداروں سے ٹکرا جانے والے نوجوان خواتین و حضرات، نہ ہی آئیوی لیگ کی جامعات یا بے حساب پولیٹیکل تھنک ٹینک اس بحران اور بربادی کو سمجھنا چاہیں گے۔

یہ مسئلہ کسی مذہب یا مسلک کا بھی نہیں ہے۔ اس سے کسی کو دلچسپی نہیں۔ کوئی آرٹسٹ، کوئی لکھاری، کوئی دانشور، کوئی فائر برانڈ ایکٹیوسٹ، کوئی بھی ان کے لیے نہیں ہے۔

میری ہمّت جواب دے چکی ہے، لہٰذا میں سرینڈر کرتی ہوں۔ میں آئندہ اس غیر موزوں موضوع پر بولوں گی، نہ لکھوں گی۔

16 دسمبر 1971 کیلنڈر کی ایک تاریخ ہی تو ہے۔ اس سال 2023 میں بھی 16 دسمبر آ کر گزر جائے گی۔

ڈاکٹر رخشندہ پروین سماجی کارکن اور ادیبہ ہیں۔