پاکستان آنے والے مہاجرین میں بہاری کمیونٹی کا درجہ دلتوں جیسا ہے

اس تحریر کی حد تک میں گمشدہ اور فراموش کیے جانے والے 3 سے 4 لاکھ محب وطن پاکستانی بہاریوں کی بات نہیں کروں گی جن کی آنکھیں پاکستان کی طرف دیکھتے دیکھتے پتھرا چکی ہیں اور ان کی نئی نسلیں شناخت کی پیچیدہ گردشوں میں پھنس کر رہ گئی ہیں۔

پاکستان آنے والے مہاجرین میں بہاری کمیونٹی کا درجہ دلتوں جیسا ہے

1947 کا ذکر ہے۔ برٹش راج نے ہندوستان میں 300 سال کی غیر رسمی اور 89 سال کی باقاعدہ استحصال پر مبنی حکمرانی کے بعد اپنی سامراجیت ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سال وجود میں آنے والے دو ملک اپنی آزادی کا جشن اگست کے مہینے میں مناتے ہیں۔ بارڈر کے دونوں اطراف ایسے لوگ بھی ہیں جو اس آزادی کو محض بٹوارہ سمجھ کر ناراض اور دکھی ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کی مشترکہ محبت منٹو کے افسانے 'ٹوبہ ٹیک سنگھ' کو 14 اور 15 اگست ذرا زیادہ یاد دلانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

بہاری کمیونٹی اور دیگر اردو سپیکنگ مہاجرین 1947 کے بعد پاکستان آ گئے، خوشی خوشی یا اس لیے بھی کہ ان کے پاس بلوائیوں کے حملوں کے بعد پاک سرزمین شاد باد کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں بچا تھا۔

پارٹیشن یا آزادی کے ایک المناک باب میں انسانوں کے قتل عام کو اور 'انسانیت کی تدفین کو' ہندو مسلم سکھ فسادات بھی کہا جاتا ہے۔ ہر عقیدے کی عورت کو جنگ کی وحشت کے اصول کے مطابق ہر طرح سے نشانہ بنایا گیا اور مردانگی کے کئی ثبوت کئی کہانیوں کی صورت میں ناولوں، افسانوں اور فلموں کا حصہ بنے۔ عزت کے مشرقی تصور کے مطابق کئی بہو بیٹیاں جو اپنی جگہ ایک مکمل انسان تھیں، اندھیرے کنوؤں اور ان گنت ان سے بھی زیادہ گہری خوف ناک خاموشیوں کا حصہ بن گئیں۔

جن مہاجرین نے مغربی پاکستان کا رخ کیا اور جن کو سابقہ مشرقی پاکستان جانا پڑا، ان کی کہانیوں میں اور ان کی آپ بیتیوں میں کافی فرق ہے لیکن میرے خیال میں ہجر کا دکھ دونوں کو ہی لاحق ہوا اور اس کا نام ہجرت پڑ گیا۔

آج میں 1971 کی زیادہ بات جان بوجھ کر نہیں کر رہی بلکہ ایک پاکستانی (جس کی اولین یادداشت ہی شہر اقتدار کی ہے جسے میرے جیسے کئی لاپروا ایکٹیوسٹ کوفہ بھی کہتے ہیں) کی حیثیت سے کچھ بے ترتیب یادیں بلکہ کچھ آوازیں جو اب بھی میرے دل میں گونجتی ہیں، قلمبند کر رہی ہوں۔

ایک آواز، تمسخر سے بھرپور، اس بڑھیا کا مذاق اڑاتے ہوئے آتی ہے؛ تو آپ کے پودینے کے باغ تھے؟ ہا ہا ہا۔۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسی آوازیں میرے ساتھ اب بھی ہیں اور جن کی ہیں وہ پاکستان کے دانشور ہیں، مایہ ناز صحافی وغیرہ ہیں۔

وہ بوڑھی خاتون میری نانی کے گھر آتی تھیں اور یہی بتایا کرتی تھیں کہ وہ پاکستان جہاز میں آئی تھیں۔ ان کو ہم لوگ دہلی والی آنٹی کہتے تھے۔ چند سالوں کے بعد وہ پودینے والی بڑھیا کہلانے لگیں، پھر وقت کی گرد میں کہیں کھو گئیں۔

کچھ اور آوازیں بھی ہیں جن کی وجہ سے مجھے بہت بچپن ہی میں پتہ چل گیا تھا کہ بہاریوں کو اردو سپیکنگ کمیونٹی میں بھی یو پی، سی پی وغیرہ والوں کی طرف سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا اور اب بھی کرنا پڑتا ہے۔ میرا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان سے موجودہ پاکستان میں 'مہاجرین' میں بہاری کمیونٹی کو دلت کا درجہ حاصل ہے۔ بہت رنج ہے۔ بہت دکھ ہے۔ بہت گرہیں ہیں، مگر کوئی سننے والا نہیں۔

جو امیگریشن حاصل کر کے یہاں سے چلے گئے امریکہ، کینیڈا وغیرہ، انہوں نے اچھا کیا۔ بدیس میں اگر مشکل ہوتی ہے تو مسلمان ہونے کی وجہ سے۔ بہاری، اردو سپیکنگ، مکڑ، بھکاری، مہاجر؛ یہ ہم لوگوں کو 'پیار' سے بلانے کے کئی القابات میں سے چند ایک ہیں، ہونے کی بدولت نہیں۔

1971 کا ذکر نہیں ہے۔ 1971 آیا اور گزر گیا۔ میرے مرحوم والد صاحب نے 16 دسمبر 1971 کے حوالے سے یہ شعر لکھا تھا؛

؎ جو قیامت سر سے گزری ہے
دیکھیے کب شعور سے گزرے

کیونکہ ابھی پاکستان کو شعور کی الف بے کا بھی نہیں معلوم، اس لیے کم از کم اس تحریر کی حد تک میں بہاری گمشدہ، بہاری فراموش کیے جانے والے 3 سے 4 لاکھ محب وطن پاکستانیوں کی بات نہیں کروں گی جن کی آنکھیں پاکستان کی طرف دیکھتے دیکھتے پتھرا چکی ہیں اور ان کی نئی نسلیں شناخت کی پیچیدہ گردشوں میں پھنس کر رہ گئی ہیں۔

2023 کا ذکر ہے۔ زندگی کی فلم کو فاسٹ فارورڈ کر کے 2023 میں آ جاتے ہیں۔ دنیا سکتے میں ہے۔ بے بسی میں ہے۔ دنیا چلانے والے غصے میں فرعونیت کا اظہار بلا جھجک کر رہے ہیں۔ ان سے فائدہ اٹھانے والے یا ان کے شر سے ڈرنے والے بڑے بڑے عہدوں اور ایوارڈز کے ساتھ خاموش ہیں۔

دنیا میں رائج بے حسی اور ناانصافی کے ضابطوں پر کروڑوں بے طاقت لوگ چلّا رہے ہیں۔ ان کو آپ انسانیت کا ضمیر بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ کچھ جنونی ہیں۔ ان کو انسانیت کے عشاق سمجھنا چاہئیے۔ وہ سوشل میڈیا اور سڑکوں پر مزاحمت کر رہے ہیں۔

مجھ جیسے بے حیثیت مگر حساس لوگ (اف کتنا خفت بھرا اور خوف ناک جوڑ ہے) دم سادھے ٹی وی پر غزہ میں جاری نسل کشی لائیو دیکھ رہے ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ پاکستان میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ افغان مہاجرین کو افغانستان واپس کیوں بھیجا جا رہا ہے۔ چار دہائیوں سے زائد عرصے تک پاکستان نے افغان مہاجرین کی بین الاقوامی امداد کے سہارے مہمان نوازی کی اور پھر اچانک یہ فیصلہ نہ جانے کہاں، کیسے اور کیوں ہوا کہ جن افغان مہاجرین کے پاس پاکستان میں مقیم رہنے کا باقاعدہ اجازت نامہ نہیں ہے ان کو بے دخل کیا جائے۔ لیکن بظاہر جائز اور معقول دکھنے والی بات نے تاریخ اور سیاست کے کئی گریبانوں کو چاک کیا ہے۔

افغان لوگوں کی، بوڑھے، کمزور، غریب، معصوم بچوں، پریشان حال مفلس عورتوں اور بچیوں کی نگاہوں میں دکھ اور دربدری کی تذلیل سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ پھر زمین کی محبت، قبیلے کی محبت میں ڈوبے نوحے اور ماتم گر سب ہی سوشل میڈیا کا حصہ بننے لگے۔

انسانیت اور ہم دلی کے حوالے سے بھی بات ہو رہی ہے۔

ہمارے ہجر اور افغان لوگوں کی ہجرت میں فرق ہے۔ ہم اپنے نئے وطن پاکستان آئے بٹوارے کے بعد، آزادی کے بعد، جہاں کوئی اپنا نہیں تھا، نہ ہے بلکہ ہمارا تو مذاق اڑایا گیا، توہین کی گئی۔ برابری کی بنیاد پر شراکت داری کے تصور کو بھی ان کی دھرتی پر حملہ جانا گیا۔ کچھ قصور ناجائز کلیم کرنے والوں کا بھی ہے۔ نتیجے کے طور پر سب ہی بھوکے ننگے پناہ گزین قرار دیے گئے۔

جبکہ افغان لوگ جنگ کی وجہ سے پاکستان آئے۔ ان کی آپسی رشتے داریاں ہیں۔ قبائل ایک ہیں۔ دری، پشتو زبانیں ان کو ہم آہنگ کرتی ہیں اس سماج سے۔ پھر ان کے لیے اقوام متحدہ کی سپورٹ بھی ہے اور سیاسی چالوں میں ایک مقام ہے۔ ہمارا اور ان کا مقابلہ ہے اور نہ ہی موازنہ بنتا ہے۔ ویسے بھی دکھ درد اور دربدری کا مقابلہ یا موازنہ کرنا کم ظرفی ہے۔

جس تن لاگے، وہ تن جانے

ہم اردو بولنے والے 'مہاجرین' کو اور خاص طور پر بہاری لوگوں کو جو پاکستان میں مقیم ہیں، اس مشکل وقت میں نہ تو عقل کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا چاہئیے اور نہ ہی کسی کے بہکاوے میں آ کر ایسی بات کرنی چاہئیے جس سے کسی بھی لسانی گروپ یا کمیونٹی کی دل آزاری ہونے کا امکان ہو۔ یاد رکھیں نفرت کی آگ کی لپیٹ میں آنا بہت آسان ہے، اپنے غم اور نقصان کو بھول کر محبت کی آنکھ سے دوسروں کو دیکھنا اور سمجھنا انتہائی مشکل ہے، لیکن ہمارے پاس یہی ایک راستہ ہے۔ ہم نے پاکستان سے غیر مشروط محبت کی ہے اور بے زمینی، بے وطنی کے تہہ دار المیوں کو ہم سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے۔

دو غلطیوں سے ایک صحیح نہیں بنتا۔ ہمیں تحمل، انسانیت اور انصاف کے پیمانوں پر اپنا بیانیہ تشکیل دینا چاہئیے۔ ہمیں ان چالاک، عیار، ایلیٹ اردو سپیکنگ لوگوں سے بھی فاصلہ رکھنا ہے جن کا کام صرف چڑھتے سورج کی پوجا کرنا ہے اور جن لوگوں نے آج تک ہمارے لیے آواز تک نہیں اٹھائی۔ ان کے فریب میں آنے کا مطلب صرف اپنی مشکلات میں اضافہ کرنا ہے۔ ہم دہشت گردی کو رد کرتے ہیں اور اختلاقی رائے رکھنے کے باوجود دشمنی میں بھی اعلیٰ ظرفی اور انسانیت کے قائل ہیں۔

دل زیادہ گھبرا جائے تو بہاری پروین شاکر کا یہ شعر پڑھ لیں؛

بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے

ڈاکٹر رخشندہ پروین سماجی کارکن اور ادیبہ ہیں۔