1947: جب برصغیر کی خوں رنگ تاریخ بھی لرز کر رہ گئی

1947: جب برصغیر کی خوں رنگ تاریخ بھی لرز کر رہ گئی
ہندوستان کی تاریخ کے ماہر اور علومِ سیاسیات کے استاد پروفیسر اشتیاق احمد کی 2011 میں شائع ہونے والی کتاب ’ The Punjab Bloodied, Partitioned and Cleansed‘ ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کے وقت ہونے والی قتل و غارت گری کی المیہ داستان کو رقم کرنے والی ایک بہترین کتاب ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر اشتیاق احمد نے بالکل غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے اور حقائق کی اس رپورٹنگ میں وہ کہیں بھی جذبات سے مغلوب دکھائی نہیں دیے۔ نہ صرف انہوں نے اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے، بلکہ تقسیم کے دوران اس قتل و غارت کا نشانہ بننے والے خاندانوں کے لوگوں کے اصلی واقعات بھی انہوں نے بہت خندہ پیشانی سے رقم کیے ہیں۔

ایسا نہیں کہ برصغیر میں پیش آنے والا یہ انسانی المیہ بالکل ناقابلِ یقین تھا۔ آزادی سے قبل آخری ایک سال میں بنگال سے لے کر پنجاب تک درجنوں بلووں اور لڑائی جھگڑے کے واقعات سامنے آئے تھے۔ بنگال میں راست اقدام کے دن سے شروع ہونے والے خوں آشام شب و روز اقتدار کی ہندوستانیوں کو منتقلی اور ملک کی تقسیم تک مسلسل جاری رہے۔ تاہم، کوئی بھی شخص یہ اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ یہ فسادات اتنے بڑے پیمانے پر ہوں گے کہ ہندوستان کی تاریخ جو کہ بیرونی حملوں اور خانہ جنگیوں سے اٹی پڑی ہے، وہ بھی اس سانحے پر ششدر رہ جائے گی۔ اس کی ایک بڑی وجہ ڈاکٹر اشتیاق احمد نے ہی اپنے حالیہ انٹرویو میں بیان کی تھی کہ قائد اعظم اور مسلم لیگ کا خیال تھا کہ پورا پنجاب اور بنگال پاکستان کو مل جائیں گے لہٰذا بہت بڑے پیمانے پر نہ ہجرت ہوگی اور نہ ہی قتل و غارت، لیکن پنجاب اور بنگال کی تقسیم نے ان منصوبوں پر پانی پھیر دیا جو مسلم لیگ اور کانگریس کے قائدین بنائے بیٹھے تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تقسیمِ ہند دراصل تقسیمِ پنجاب تھی۔ بنگال اس سے قبل 1905 میں بھی تقسیم کے مرحلے سے گزر چکا تھا اور وہ چونکہ محض ایک انتظامی تقسیم تھی، اس لئے اس وقت تو قتل و غارت کی کوئی وجہ ہی موجود نہیں تھی۔ تقریباً انہی خطوط پر 1947 کی تقسیم بھی ہو گئی۔ بلوچستان، صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) اور صوبہ سندھ تو تقسیم کے عمل سے گزرے ہی نہیں۔

لگ بھگ ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد نے دونوں ممالک کی طرف جو ہجرت کی ان میں بھی زیادہ تر افراد کا تعلق پنجاب سے تھا۔ ڈاکٹر اشتیاق کے مطابق قریب ایک کروڑ مہاجر افراد پنجاب ہی سے تعلق رکھنے والے تھے جو مشرقی سے مغربی اور مغربی سے مشرقی پنجاب کی طرف نقل مکانی کر رہے تھے۔

کہنے والے تو اس تعداد کو 20 لاکھ سے بھی زیادہ بتاتے ہیں لیکن محتاط اندازوں کے مطابق قریب پانچ سے آٹھ لاکھ افراد ان فسادات میں ہلاک ہوئے اور کم از کم 90 ہزار خواتین اغوا کی گئیں۔ ان میں مسلمان عورتیں بھی تھیں تو ہندو اور سکھ عورتیں بھی۔ دونوں جانب کی خواتین کے ساتھ ان کے ہم مسلک، ہم مذہب لوگوں نے بھی کچھ اچھا نہیں کیا۔ منٹو کا افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ ایک سکھ کی کہانی سناتا ہے کہ جس نے کئی مسلمان مردوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے کے بعد اسی خاندان کی ایک جواں سال لڑکی کو اغوا تو کر لیا لیکن جب اسے جنسی حیوانیت کا نشانہ بنانے کے لئے وہ ریلوے لائنوں کے قریب پہنچا تو اسے پتہ چلا کہ وہ تو خوف سے مر چکی تھی۔ ایشر سنگھ اس واقعے کے بعد impotent ہو گیا اور اس کی محبت نے ہی اسے اپنے ہاتھوں سے قتل کر ڈالا۔ لیکن یہی منٹو ’کھول دو‘ میں اس لڑکی کی کہانی بھی بُنتا ہے جسے پاکستان آنے کے بعد اس کے اپنے ہی ہم وطنوں نے، وہ بھی سکاؤٹس نے کئی مرتبہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ کچھ ایسی ہی کہانی رضیہ بٹ کے ناول ’بانو‘ کی بھی ہے جس پر چند برس قبل ڈرامہ سیریل ’داستان‘ بنایا گیا تھا۔ قدرت اللہ شہاب بھی ’یا خدا‘ میں دو ایسی ہی خواتین کا ذکر کرتے ہیں، اور آزادی کے خوابوں کے چور چور ہونے کا رونا روتے ہیں۔

ہندوستان سے لٹ پٹ کر آنے والے خاندانوں کے پاس ایسی بے شمار کہانیاں ہیں۔ اس طرف سے آنے والی مسلمان عورتوں پر وہ شب و روز کسی قیامت سے کم نہ تھے۔ دوسری طرف اسی دوران مغربی پنجاب جسے پاکستانی پنجاب بھی کہا جا سکتا ہے، میں سکھوں کے ساتھ بھی کچھ ایسے خوفناک واقعات پیش آئے جو سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ چند برس قبل حبیب گوہر نے بھی راولپنڈی کے نزدیک ایک گاؤں کی کہانی لکھی تھی کہ جس کی 93 سکھ خواتین نے اپنے تمام مردوں کے مارے جانے کے بعد ایک ہی کنویں میں چھلانگیں مار کر جانیں دے دی تھیں، لیکن اپنی عصمتیں بچانے میں کامیاب رہی تھیں۔ یہ جان کے بدلے عصمت کا سودا بھی نہ جانے کیا عجیب دھندا ہے۔ خیر چھوڑیے، حبیب گوہر نے کیا لکھا، وہ سنیے:

’’تھوہا کے صرافہ بازار میں خوب رونق لگی ہوئی تھی کیونکہ فصل کی کٹائی کے بعد شادیوں کا موسم  تھا۔ صرافہ بازار کے قریبی محلے کی ایک ہندو لڑکی سے ایک مسلمان نوجوان شادی کرنا چاہتا  تھا۔ لیکن ان کے بیچ دھرم کی فولادی دیوارحائل تھی۔

۔ مارچ 1947 کورات کی تاریکی میں مسلمانوں نے اچانک تھوہا پر حملہ کر دیا۔ کہا گیا کہ اسلام قبول کر لیں، مذکورہ لڑکی حوالے کر دیں یا پھر تیار ہو جائیں۔ کلمہ و نکاح پڑھانے اور کیس کٹوانے کے لیے حجام اور نکاح خوان ساتھ تھے۔ شرائط خالصہ کی غیرت نے گوارہ نہیں کیں۔ تین دن دلیرانہ مقابلہ ہوا۔ دو سو سکھ جاں بحق ہو گئے۔ بالآخر گلاب سنگھ کی حویلی پر سفید جھنڈا لہرا دیا گیا۔ دس ہزار روپے فوری تاوان ادا کیا گیا۔ حلفیہ بیان لیا گیا کہ اب حملہ نہیں ہو گا۔ لیکن اگلے دن پھر حملہ ہوا اور مزید سکھ مارے گئے۔ خالصہ کو اپنے مرنے والوں کا اتنا دکھ نہیں تھا، جتنا ہندو لڑکی کے جانے کا تھا۔

گلاب سنگھ کی حویلی میں بیر بہادر سنگھ اور بڑے بھائی اوتار سنگھ نے اپنے خاندان کی دس سے چالیس سال کے درمیان کی 26 عورتوں کو اکٹھا کیا اور ان کے والد سنت راجہ سنگھ نے دو دھاری تلوار سے انہیں ایک ایک کر کے قتل کر دیا۔ انہیں ڈر تھا کہ انہیں جبراً مسلمان بنایا جائے گا اور ان کا زبردستی نکاح کر دیا جائے گا۔ بقیہ عورتیں ایک کمرے میں بند کر دی تھیں۔ لوگوں نے حویلی کو گھیرے میں لے لیا۔ مسلمانوں نے تھوہا پر قبضہ کر لیا اور سنت راجہ سنگھ کو قتل کر دیا۔

کمرے میں بند عورتیں باہر نکل آئیں۔ سردارنی بسنت کور نے عورتوں سے مشورہ کیا اور سب عورتیں بچوں کو لے کر دکھ پچھنی کی طرف جذباتی سرشاری کے ساتھ روانہ ہو گئیں۔ جہاں ماتا لاجونتی پہلے سے موجود تھیں۔ اور پھر ستی اور جوہر کی قدیم رسم کا اعادہ ہوا۔ عورتوں نے کنویں میں چھلانگیں لگانا شروع کر دیں۔ کنواں لاشوں سے بھر گیا۔ سردارنی بسنت کور نے لاشوں کے اوپر چھلانگ لگائی لیکن پانی اتنا نہیں تھا۔ 93 عورتیں قربان ہو گئیں۔

تھوہا خالصہ  کے شمال میں تین کلومیٹرکے فاصلے پر گردوارہ ’دکھ پھج نی‘ ہے۔ محکمہ اوقاف کی جانب سے رہنمائی کے لئے کوئی بورڈ آویزاں نہیں ہے۔ لگائیں بھی تو کیسے؟ اور لکھیں بھی تو کیا؟ آئینہ بینی اتنی بھی آسان نہیں۔ کنوؤں، آم کے درختوں، کھنڈرات، ویرانی، افسردگی، سناٹا اور خوف کے علاوہ یہاں امرتا پریتم کا نوحہ سنائی دیتا ہے۔

اج آکھاں وارث شاہ نوں کتھوں قبراں وچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی تُوں لکھ لکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن
اُٹھ دردمنداں دیا دردیا تک اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب

میں کافی دیر کھنڈرات میں کسی کتبے، لوح  یا سنگی تحریر کی تلاش میں رہا۔ لیکن کھوجیوں کی اندھی ہوس نے کچھ بھی نہیں چھوڑا۔ جو چار اینٹیں بچ گئی ہیں کل وہ بھی نہیں رہیں گی۔ تھوڑا عرصہ پہلے محکمہ اوقاف نے ’دکھ پھج نی‘ کا وسیع رقبہ سبزیوں کی کاشت کے لئے ٹھیکے پر دے دیا تھا۔ اس غم زدہ زمین پر سبزیاں تو کیا ہونی تھیں، ’دکھ پھج نی‘ کی رہی سہی پسلیاں بھی پجھ گئیں۔

سنتالیس انسانی تاریخ کا ایک خون آشام سال ہے۔ یہ ایک ’دکھ پھج نی‘ کا ماتم نہیں۔ ایسے ہزاروں مقامات ہیں جہاں انسانیت رسوا ہوئی۔ جواباً جو کچھ مسلمان مہاجرین خصوصاً عورتوں کے ساتھ ہوا وہ اس سے بھی زیادہ اذیت ناک ہے۔ سعادت حسن منٹو نے ان فسادات کی نذر ہونے والوں کے بارے میں کہا تھا کہ کوئی سکھ، مسلم اور ہندو نہیں مرا ـــــــ انسان مرا۔ اس سے ایک قدم پیچھے ہٹیں گے تو کھوپڑیوں کے مینار، خون سے سیراب کھیت، لاشوں سے بھرے کنویں اور لہو سے لت پت ٹرینیں ملیں گی‘‘۔