افغان مہاجرین کی بے دخلی علاقائی کشیدگی کا خطرہ بڑھا رہی ہے

افغان مہاجرین کے ساتھ اس طرح کے سلوک سے طالبان کو فرمانبرداری پہ مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ دوحہ معاہدے کے بعد طالبان چین، بھارت، ایران اور امریکہ سمیت کئی ملکوں سے لین دین پر مبنی تعلقات قائم کرنا سیکھ چکے ہیں جس کے بعد پاکستان پر ان کا انحصار بہت کم رہ گیا ہے۔

افغان مہاجرین کی بے دخلی علاقائی کشیدگی کا خطرہ بڑھا رہی ہے

آج کل بین الاقوامی توجہ مکمل طور پر غزہ میں اسرائیل-فلسطین تنازعہ پر مرکوز ہے، جبکہ پاکستان سے 17 لاکھ افغان مہاجرین کی درد ناک بے دخلی اس کے پیچھے چھپ کے رہ گئی ہے۔

موجودہ صورت حال میں پاکستان سے محض غیر قانونی مقیم باشندوں کی وطن واپسی ہی شامل نہیں ہے۔ اس فیصلے میں پاکستان کی حکمران اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اپنے سابق اتحادیوں اور دوستوں یعنی افغان طالبان کے لیے غصے اور مایوسی کا اظہار بھی نظر آتا ہے۔ سٹریٹجک معاملات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے والے کسی بھی ماہر سے بات کر لیں، وہ یہی دعویٰ کرے گا کہ افغان مہاجرین کی پاکستان سے اچانک بے دخلی بالکل جائز ہے۔ آخر کون سا ملک اپنے ملک میں مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو برداشت کر سکتا ہے، جیسا کہ پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کہتے ہیں کہ خاص طور پر ان لوگوں کو کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے جو پاکستان کے اندر انتہاپسندی پر مبنی پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

انوار الحق کاکڑ کا دعویٰ ہے کہ رواں سال صرف اکتوبر کے مہینے میں افغان باشندے پاکستان میں دہشت گردی کی 15 کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اگرچہ یہ دعویٰ شفافیت کے کسی معیار پر پورا نہیں اترتا لیکن اسے درست مان بھی لیا جائے تب بھی یہ سوال پوچھے بنا نہیں رہا جا سکتا کہ نگران حکومت نے ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو، جو دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے پاس بہت مضبوط ڈیٹا موجود ہے، پوری افغان کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے بجائے محض مجرموں کی نشاندہی کرنے کو کیوں نہیں کہا۔ جس طرح سے پوری افغان کمیونٹی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اس سے پاکستان کی مجموعی قیادت کے پست معیار کا پول کھل رہا ہے جو خاص طور پر پچھلے ایک سال سے منظم انداز میں پاکستان پر حکومت کر رہی ہے۔

افغان پناہ گزینوں کی بے دخلی کا فیصلہ بظاہر جذبات کی رو میں لیا گیا ہے اور مذکورہ فیصلہ انسانی حقوق اور پاکستان کے تزویراتی مفادات کے معیار پر پورا اترتا دکھائی نہیں دیتا۔

سب سے پہلے تو معصوم لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا اور انہیں مصائب سے بھرے غیر یقینی مستقبل کی جانب دھکیلنا بے رحمی پر مبنی اقدام ہے۔ موسم سرما کا پہلے ہی آغاز ہو چکا ہے اور ایسے میں یہ افغان باشندے غربت اور تکالیف سے بھرے مستقبل کا سامنا کریں گے۔ اس صورت حال کو اقوام متحدہ کا ادارہ برائے پناہ گزین ہنگامی قرار دے چکا ہے۔

یہ بدقسمتی ہے کہ عالمی طاقتیں یوکرین اور مشرق وسطیٰ میں جاری بحران میں مگن ہیں، ایسا لگتا ہے کہ افغانستان کی صورت حال پر توجہ دینے کے لیے ان کے پاس وقت ہے اور نہ ہی وسائل۔ دلیل یہ نہیں ہے کہ کسی بھی دوسری ریاست کی طرح پاکستان غیر قانونی شہریوں کو اپنے ہاں رکھنے سے انکار کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ اصل معاملہ افغانستان اور پاکستان کے مابین تعلقات کی نوعیت ہے جس سے پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں۔ جن لوگوں کو پاکستان سے بے دخل کیا جا رہا ہے وہ 2021 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد اپنے ملک سے فرار ہو کر پاکستان آئے تھے۔ ان لوگوں کو پہلے ہی طالبان کی جانب سے شدید خطرات درپیش ہیں اور ایسے لوگوں کو بے دخل کر کے سزا کے طور پر کابل بھیجنے سے شاید مطلوبہ مقصد حاصل نہ ہو سکے۔

پاکستان ان افغانوں کو بھی ملک سے نکال رہا ہے جن کے پاس مکمل دستاویزات موجود ہیں۔ نگران وزیر خارجہ کے بیانات کے باوجود کہ صرف غیر قانونی افراد کو نکالا جا رہا ہے، ہدف اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ معصوم بچوں کو سکول جانے سے محروم کر کے ان پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ واضح ہو چکا ہے کہ افغان مہاجرین اب پاکستان کے لیے کوئی منافع بخش منصوبہ نہیں رہے جیسا کہ 1980 کی دہائی میں تھے جب پاکستان کو لاکھوں ڈالر ملتے تھے۔

سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والی حکمران اشرافیہ کو افغان باشندوں کے دکھوں سے بہت کم ہمدردی ہے۔ درحقیقت، ملکی سلامتی سے متعلق بیانیے کے لبادے میں شدید نسلی تعصب پنہاں نظر آتا ہے۔ اچانک افغانوں، بشمول ان تاریخی شخصیات کے جنہیں کبھی ہندوستانی ثقافت اور تہذیب سے ہٹ کر مسلم پاکستانی ورثے کے نمائندوں کے طور پر فخر کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا، سب سے لاتعلقی دکھائی جا رہی ہے۔

یہ محض اگلا صفحہ پلٹنے کی بات نہیں ہے جیسا کہ صحافی ابصار عالم اچانک ہر قسم کے افغانوں کے ساتھ عدم اطمینان کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سے تاریخ کو مٹانے کی ایک اور شکل واضح ہوتی ہے، جس میں وہ ماضی قریب بھی شامل ہے جب پاکستانی ریاست نے اپنے ہتھیاروں کے نام وسطی ایشیا اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے فاتحین بشمول احمد شاہ ابدالی کے ناموں پر رکھے تھے۔

سندھ میں بھی ابصار عالم کے ہمدرد موجود ہیں جو ریاستی سرپرستی میں تیار ہونے والی قومی سلامتی پالیسی کی آڑ میں اپنے نسلی تعصب کو چھپاتے ہوئے اسی قسم کی نسل پرستی کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔

افغان عوام کو مختلف ثابت کرنے سے پاکستانی معاشرے میں ایک نئی کشیدگی کا آغاز ہو سکتا ہے جس سے مستقبل میں مزید پولرائزیشن پیدا ہو گی۔ یہ رجحان پڑھے لکھے لوگوں کو بھی انسانی حقوق کے حوالے سے ان کی حساسیت کے کھوکھلے پن سے آگے دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا اور ان کا دل بھی ان مفلوک الحال افغانوں کے لیے رنجیدہ ہونے سے انکاری ہے۔

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے تبصرے ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں تزویراتی معاملات کی زیادہ سمجھ بوجھ نہیں ہے اور یہ تبصرے کشیدہ سیاسی صورت حال سے نمٹنے کی ناپختہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کا یہ بیان پاکستان کی افغان پالیسی میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتا ہے، جو کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے 1980 کی دہائی کے اوائل سے افغانستان میں عسکریت پسندی کی تشکیل اور حمایت کی اپنی دیرینہ حکمت عملی سے انحراف کا اشارہ دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان پر کچھ زیادہ ہی انحصار کرنے سے شروع ہونے پالیسی اب طالبان کی حکمرانی والے کابل سے دوری اختیار کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے۔

باوجود اس کے کہ تحریک طالبان پاکستان دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں میں ملوث رہی ہے، چند ہفتے قبل اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم انہی طالبان کا مقدمہ لڑ رہے تھے۔ اسی طرح سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور قومی سلامتی کے سابق مشیر معید یوسف بھی عالمی برادری پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ طالبان حکومت کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ کرے اور انہیں مالی امداد فراہم کرے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی اس سے قبل دنیا پر زور دے رہے تھے کہ وہ طالبان کی بربریت کو نظرانداز کر دیں اور افغانستان کے غریب، بھوکے اور بے سہارا لوگوں کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ دلیل اب پاکستان کے انہی شہروں میں کھوکھلی ہو کر رہ گئی ہے۔

فاصلے بڑھانے سے دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا جب تک کہ پاکستان یہ تسلیم نہ کر لے کہ پرتشدد انتہا پسندی کے بہت سے ذرائع پاکستان کے اندر پنپ رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک کے اندر تحریک طالبان پاکستان کو منظم انداز میں پروان چڑھانے سے متعلق بہت کم بات کی جاتی ہے جبکہ یہ منصوبہ 2016 میں بنایا گیا تھا اور عمران خان کی حکومت نے اسے نافذ العمل کیا تھا۔

اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ ہے کہ افغان مہاجرین کے ساتھ اس طرح کے سلوک سے طالبان کو فرمانبرداری پہ مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ مصنف حسن عباس اپنی تازہ کتاب میں دلیل دیتے ہیں کہ طالبان پاکستان کے قابو میں ہیں، تاہم حقیقت یہ ہے کہ دوحہ معاہدے کے بعد طالبان چین، بھارت، ایران اور امریکہ سمیت کئی ملکوں سے لین دین پر مبنی تعلقات قائم کرنا سیکھ چکے ہیں جس کے بعد پاکستان پر ان کا انحصار بہت کم رہ گیا ہے۔

اپنی مایوسی کو غالب آتا دیکھ کر راولپنڈی کابل کو یہ باور کروانے کے جتن کر رہا ہے کہ پاکستان میں بدامنی پیدا کرنے کی بھاری قیمت ادا کرنی ہو گی۔ تاہم ٹرانزٹ ٹریڈ سے متعلق پاکستان کے فیصلے سے پریشان ہوئے بغیر افغان حکومت نے متبادل سپلائی روٹس کے لیے ایران کے ساتھ بات چیت کا آغاز کر دیا ہے۔

مجھے پاکستان کی علاقائی تجارت پر 2014 کی اپنی تحقیق یاد آ رہی ہے جس کا عنوان تھا؛ 'ٹینکوں کے لیے چائے کی پتیاں: پاکستان کی ایران، انڈیا اور افغانستان کے ساتھ تجارت'، جس میں بہت سے افغان تاجروں نے بتایا تھا کہ وہ ایران کے مقابلے میں پاکستان کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان میں کئی دہائیوں سے مقیم افغانوں نے پاکستان کی معیشت میں نمایاں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ سرمایہ کاری اب خطرے میں ہے۔ خاص طور پر افغان مہاجرین کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے بعد علاقائی حالات بدل کر رہ جائیں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ شیعہ اکثریتی ملک ہونے کے باوجود ایران نے طالبان اور کابل کی مختلف حکومتوں کے ساتھ کہیں زیادہ محتاط انداز میں معاملہ کیا ہے۔ ایران خطے کا دوسرا ملک ہے جس نے لاکھوں پناہ گزینوں کی میزبانی کی ہے لیکن ان پناہ گزینوں کی واپسی کا انتظام اس نے پاکستان سے بہت مختلف انداز میں کیا ہے۔

مجھے یاد ہے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ایک اہم ادارے کے لیے تحقیق میں مصروف ایک سویلین ٹھیکیدار نے مجھے بتایا تھا کہ ایسا مانا جاتا ہے کہ تاریخی طور پر پاکستان کے لیے اصل خطرہ مشرق کے بجائے شمال مغرب کی جانب سے پیدا ہوتا رہا ہے۔ اگرچہ اس دلیل میں بہت سارے مسائل ہیں تاہم ایسا لگتا ہے کہ ریاست اپنے خدشات کو حقیقت میں بدلنے پر زور لگا رہی ہے۔ ان افغان پناہ گزینوں کو اس قدر ذلت کے ساتھ واپس بھیجنے سے بہت کم امکان ہے کہ پاکستان کا افغان مسئلہ حل ہو جائے گا بلکہ اس کے نتیجے میں یہ مسئلہ مزید سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے۔

**

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا یہ تجزیہ The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لیے اردو ترجمہ کیا گیا ہے۔