افغان پناہ گزینوں کی بے دخلی سے پاکستان کے مسائل ختم ہو جائیں گے؟

اب دیکھنا یہ ہے کہ جب یہ غیر قانونی افغانی ملک چھوڑ کر جائیں گے تو اس کے پاکستانی معیشت پر کیا اثرات ہوں گے اور کیا ان افغانیوں کے جانے کے بعد ملک میں جاری دہشت گردی کی لہر  رک جائے گی؟ کیا افغانیوں کے جانے سے ملک میں مہنگائی کا خاتمہ ہو جائے گا؟ یہ دیکھنے کے لیے ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔

افغان پناہ گزینوں کی بے دخلی سے پاکستان کے مسائل ختم ہو جائیں گے؟

جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے ہم نے افغانیوں کو اپنے گاؤں میں کام کرتے دیکھا ہے۔ بچے بوڑھے جوان حتیٰ کہ خواتین بھی کسی قسم کا کام کرنے میں تردد نہیں کرتی تھیں۔ گاؤں کی ہر عمارت میں ان افغانیوں کا پسینہ شامل ہے جو ہمارے علاقے کے نوجوانوں سے زیادہ کام کرتے تھے کیونکہ ان کی قوت مدافعت سب سے زیادہ تھی اور یہ قوم کام چور نہیں ہے۔ چھوٹے بچے اور بچیاں سروں پر پتیلی اٹھا کر گھر گھر جاتے اور دہی فروخت کرتے۔ بازاروں میں دہی ملنے کا کوئی نظریہ نہیں تھا۔ سارے لوگ ان سے دہی لیا کرتے تھے۔ سکول جاتے ہوئے چلغوزے اور بادام ان سے لئے جاتے تھے۔ اب تو چلغوزے کھائے ہوئے عمر بیت گئی۔ ہمارے بچے اس کے ذائقے سے بھی نابلد ہیں۔ یعنی ہم نے ہر جگہ پر ان افغانیوں کو کاروبار کرتے دیکھا۔

پشاور سے لے کر کراچی تک سب افغانی ہی کام کرتے نظر آتے۔ یوں انہوں نے یہاں گھر بھی بنا لیے۔ ایک وقت تھا کہ پشاور میں ان کی وجہ سے مکان ملنا مشکل تھے کیونکہ یہ زیادہ کرایہ دیتے تھے۔ وقت گزرتا گیا، افغانستان پر حملہ ہوا تو مزید افغانی پاکستان آئے۔ ان کو ملک چھوڑ کر جانے کی کئی بازگشتیں سنائی دیں مگر موجودہ غیر قانونی افغانیوں کے خلاف آپریشن کی مثال نہیں ملتی۔ گذشتہ روز جب گاؤں سے صوابی آ رہے تھے تو صبح افغانی ہوٹل والے نے پوچھا جو سالوں سے ہوٹل کر رہا ہے اور ہمارے گاؤں میں جائیداد بھی بنائی ہوئی ہے اور شاید ہی کبھی وہ افغانستان گیا ہو۔ اس نے سوال کیا کہ ہماری حیثیت تو قانونی ہے، سارے دستاویزات ہمارے پاس ہیں، کیا ہمیں بھی جانا ہو گا؟ کیونکہ مجھے ایک دوست نے بتایا ہے کہ سارے افغانی جائیں گے، کوئی بھی پاکستان میں نہیں رہے گا۔ تو سر جی ہمارا کیا ہو گا؟

یہ محض ایک افغانی کا سوال نہیں بلکہ یہ ہر اس افغانی کا سوال ہے جو وطن عزیز میں سالوں سے رہ رہا ہے۔ اس کے مطابق ہمارے بہت سے رشتہ داروں نے جو غیر قانونی طور پر مقیم تھے انہوں نے طورخم بارڈر کے سفر کا خرچ برداشت کرنے کے لیے اپنے خاندان کا سارا سامان بیچ دیا۔ اور بھی دوست احباب جو افغانستان کے شہر قندھار سے تعلق رکھتے ہیں جو 'غیر مجاز' افغان مہاجرین میں سے ہیں جنہیں پاکستان چھوڑنے یا بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور ملک بدری کا سامنا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

مولا جان (ہوٹل والے) کے مطابق 'کوئی بھی نہیں جانا چاہتا لیکن ہر بے بس ہے۔ افغانستان ہمارا وطن ہے لیکن وہاں کے حالات خراب ہیں اور یہ سخت سردی کا آغاز ہے۔ ہمارے پاس ٹھہرنے کی جگہ نہیں ہے مگر ہم اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہاں ہمارے اپنوں کو رہنے کی جگہ اور کام مل جائے گا۔

اس ماہ کے شروع میں نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے تمام غیر قانونی تارکین وطن کے لیے ملک چھوڑنے یا بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور ملک بدری کا سامنا کرنے کے لیے 28 دن کی ڈیڈ لائن کا اعلان کیا تھا۔ نئے حکم نامے کے تحت تمام غیر دستاویزی تارکین وطن کو یکم نومبر تک پاکستان چھوڑنا ہو گا۔ اگرچہ افغان مہاجرین کا براہ راست نام نہیں لیا گیا لیکن بگٹی نے کہا کہ پالیسی میں تبدیلی پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی لہر سے متاثر ہے۔ انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ ملک میں جنوری سے اب تک ہونے والے 24 خودکش بم حملوں میں سے 14 افغان شہریوں نے کیے ہیں۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغان مہاجرین کے خلاف اس بیانیے کو چیلنج کیا تھا۔ اس اعلان کو انسانی حقوق کے محافظوں اور کارکنوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کا مؤقف اس پر آیا کہ یہ فیصلہ 'نہ صرف ہمدردی کی عدم موجودگی بلکہ قومی سلامتی کے بارے میں ایک غیر معمولی اور تنگ نظری کی عکاسی کرتا ہے'۔ اس نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اس فیصلے کو واپس لے مگر اس پر کوئی بات نہیں کی گئی اور پشاور، بلوچستان سے لاکھوں غیر قانونی افغان مہاجرین ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں اور یکم نومبر کی ڈیڈ لائن میں کوئی توسیع نہیں ہو گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے سالوں سے افغانیوں کو پاکستان میں رکھا گیا تب کوئی ایسی نوبت نہیں آئی؟ اب ایسا کیا ہو گیا کہ خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانی پڑی اور مختصر وقت میں افغانیوں کو ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دی گئی۔ اس حوالے سے اگر دو سال کے واقعات کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ پاکستان کی حکومت اور طالبان حکومت کے درمیان تعلقات گزشتہ دو سالوں میں تلخ ہو چکے ہیں۔ اسلام آباد نے طالبان حکومت کو پاکستان میں اسلام پسند عسکریت پسندی کی بحالی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

ستمبر میں افغانستان کی سرحد سے ملحقہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا صوبوں میں ایک ہی دن دو الگ الگ خودکش بم دھماکوں میں تقریباً 60 افراد ہلاک ہوئے جن میں افغانی شہریوں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے اور افغان حکومت کو اس حوالے سے آگاہ بھی کیا گیا۔ 10 لاکھ سے زائد افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کے فیصلے کو کابل کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی کو روکنے میں اسلام آباد کی مدد کرنے سے انکار کے براہ راست ردعمل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور اس فیصلے کو کئی لوگ کئی نظر سے دیکھ رہے ہیں جس کی ایک وجہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کی تشویش ناک صورت حال ہے جہاں انہوں نے ایک جابرانہ نظام نافذ کیا ہے، خاص طور پر ان خواتین اور لڑکیوں کے لیے جنہیں کام یا تعلیم کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ بے روزگاری اور بھوک دونوں آسمان چھو رہی ہیں اور معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ اس ماہ افغانستان نے بھی کئی دہائیوں میں اپنے سب سے مہلک زلزلے کا تجربہ کیا، جس میں 3 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جس سے بھوک کا شکار قوم کے لیے معاملات مزید پیچیدہ ہو گئے۔

اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں تقریباً 40 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں جن میں 7 لاکھ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد 2021 میں افغانستان سے فرار ہو کر پاکستان آئے۔ 4 ملین میں سے تقریباً 1.73 ملین دستاویزات کے بغیر ہیں۔ انہیں پاکستان میں 'غیر قانونی' سمجھا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ کسی قانونی تحفظ سے محروم ہیں۔ اس سارے پراسیس میں ایک بات اور بھی ذہن میں رکھنی چاہئیے کہ پاکستان مہاجرین کی حیثیت سے متعلق 1951 کے کنونشن کا دستخط کنندہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے 1967 کے پروٹوکول اس پر لاگو ہوتے ہیں۔ ملک میں مہاجرین کے تحفظ اور حیثیت کے تعین کے لیے کسی قومی قانون سازی یا فریم ورک کا بھی فقدان ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ جب یہ غیر قانونی افغانی ملک چھوڑ کر جائیں گے تو اس کے پاکستانی معیشت پر کیا اثرات ہوں گے اور کیا ان افغانیوں کے جانے کے بعد ملک میں جاری دہشت گردی کی لہر  رک جائے گی؟ کیا افغانیوں کے جانے سے ملک میں مہنگائی کا خاتمہ ہو جائے گا؟ یہ دیکھنے کے لیے ہمیں انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ اب افغانی تو جا رہے ہیں مگر اس کے بعد کس کو ملک چھوڑنے کا کہا جائے گا؟

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں شعبہ صحافت کے سربراہ ہیں۔ پشاور میں صحافت کا دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔