پاکستان نے سرحد پار سے دہشتگردوں کی نقل و حرکت کنٹرول کرنے کے لئے پاک افغان بارڈر ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور حکومتی اور قومی سلامتی کے اداروں کے مطابق پاک افغان بارڈر پر 90 فیصد باڑ لگایا جاچکا ہے۔ طالبان کی آمد سے پہلے اشرف غنی حکومت کی جانب سے باڑ پر لفظی جنگ کے سوا کوئی کشیدگی نظر نہیں آئی ، لیکن افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار انے کے بعد بارڈر پر کشیدگی واضح ہے۔
سوشل میڈیا پر ایسی کئی ویڈیوز گردش کررہی ہے جس میں افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں طالبان کے مقامی کمانڈر پاکستانی چیک پوسٹوں میں تعینات سیکیورٹی فورسز کے ساتھ اونچی آواز میں بات کر رہے ہیں اور ان کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ دوبارہ سے اگر افغانستان کی حدود میں باڑ لگانے کی کوشش کی گئی تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔
طالبان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان نے افغانستان کی حدود میں باڑ لگانے کا سلسلہ شروع کیا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان نے افغانستان کی حدود میں باڑ لگانے کی تردید کی ہے اور مسلسل موقف اپنایا جا رہا ہے کہ پاکستان اپنے حدود کے اندر بارڈر پر باڑ لگا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ڈیورنڈ لائن کے نام سے منسوب پاک افغان سرحد تقریباً 2400 کلومیٹر پر مشتمل ایک طویل سرحد ہے اور پاکستان نے افغانستان کے علاوہ ایران کی سرحد کے ساتھ بھی باڑ لگانے کا منصوبہ چند برس پہلے شروع کیا تھا۔
پاکستان اس منصوبے پر خطیر رقم خرچ کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ یہ باڑ سرحد پر غیر قانونی نقل و حمل روکنے کے لیے لگائی گئی ہے۔
سرحد پر باڑ لگانے کے عمل کے دوران افغانستان کی جانب سے متعدد حملے ہو چکے ہیں جس میں پاکستان کا جانی نقصان بھی ہوا ہے۔
افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار انے کے بعد بھی سرحد پار سے حملوں کا سلسلہ بند نہیں ہوسکا اور رواں سال مئی میں افغانستان کی جانب پاکستان کے ضلع ژوب کے قریب ملنے والی سرحد پر حملہ کیا تھا۔ اس میں حملہ آوروں کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کون تھے لیکن بظاہر یہی کہا گیا تھا کہ شدت پسندوں نے پاکستان کی ایف سی کے اہلکاروں پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں چار اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاک افغان سرحد پر بھی کشیدگی جاری ہے اور رپورٹس کے مطابق پاکستانی چیک پوسٹوں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے جس میں سیکیورٹی فورسز کے جوان قربانیاں دیں رہے ہیں۔
پاکستان نے بارڈر پر غیر قانونی نقل و حرکت اور عسکریت پسندوں کی سرحد پار کرنے کے پیش نظر بارڈر پر چار سال پہلے باڑ لگانے کا سلسلہ شروع کیا ہے کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ ایک طویل بارڈر ہے اور اس کی مسلسل نگرانی مشکل ہے اور یہی وہ وجوہات ہے کہ بارڈر پر باڑ لگانے کا سلسلہ شروع کیاگیا ۔
واضح رہے کہ پاکستان پر مسلسل یہ الزام لگ رہا ہے کہ طالبان پاکستان کے بہت قریب ہے اور وہ پاکستان کے ہدایات پر عمل پیرا ہے جبکہ دوسری جانب بارڈر پر حالیہ کشیدگی اور طالبان کی جانب سے بین القوامی سرحد ڈیورنڈ لائن پر مسلسل متنازعہ بیانات نے نئے بحث کو جنم دیا اور یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ اگر پاکستان ، افغان طالبان کے اتنے قریب ہے تو پھر طالبان کی جانب سے بارڈر پر ایسے واقعات کیوں پیش آرہے ہیں۔
پاکستان میں افغان امور کے ماہر صحافی اور تجزیہ کار طاہر خان کہتے ہیں کہ مسلسل پاکستان پر یہ الزام لگ رہا ہے کہ افغان طالبان ، پاکستان اور پاکستان ، افغان طالبان کے اتنے قریب ہے کیونکہ اگرایسا تھا تو پھر پاکستان نے امریکہ کو طالبان کے خلاف نہ صرف اڈے فراہم کئے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ اس جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کا کردار بھی ادا کیا اور اگر پاکستان ایسا نہ کرتا تو شائد افغانستان میں طالبان کی حکومت اتنی جلدی ختم نہیں ہوتی ۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں کہ طالبان پاکستان کی ایماء پر یہ سب کچھ کررہے ہیں ہاں یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں طالبان حکومت اور پاکستان نے ایک دوسرے کے ساتھ مختلف وقتوں میں تعاون کیا ہے لیکن اس میں کوئی حقیقت نہیں کہ افغان طالبان پاکستان کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔
کیا طالبان ڈیورنڈ لائن کو بین القوامی سرحد مانتے ہیں؟
طاہر خان سمجھتے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ پرانا اور پیچیدہ مسئلہ ہے اور افغانستان کی ماضی کی حکومتیں بھی ڈیورنڈ لائن کو بین القوامی سرحد تسلیم نہیں کرتی تھی اور طالبان کا موقف بھی وہی ہے جو افغان حکومتوں کا ہے لیکن دوسری جانب پاکستان ڈیورنڈ لائن کو بین القوامی بارڈر مانتا ہے اور پاکستان کے اس دعویٰ کو کئی بین القوامی ملکوں کا تعاون حاصل رہا ہے لیکن ڈیورنڈ لائن کو بین القوامی سرحد نہ ماننے کا جو موقف حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومت کا تھا وہی موقف طالبان کا بھی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ 90 کی دہائی میں بھی طالبان کا ڈیورنڈ لائن پر یہی موقف تھا اور ملا عمر کا بھی ایک موقف ہے کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو بین القوامی سرحد تسلیم نہیں کرتے تھے اور حال ہی میں افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا بھی ایک ایسا ہی بیان سامنے آیا۔
سرحد پر کشیدگی کیوں پیدا ہوئی؟
صحافی طاہر خان کہتے ہیں کہ باڑ کے مسئلے پر جو حالیہ کشیدگی پیدا ہوئی اس پر طالبان کا موقف ہے کہ پاکستان نے افغانستان کے حدود میں باڑ لگائی تھی جس کو ہٹا دیا گیا اور طالبان کے اس دعویٰ میں اگر حقیقت ہے تو پھر افغانستان میں طالبان کی حکومت نے صحیح قدم اُٹھایا لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت اور فوج کے تعلقات عامہ کا ادارہ اس پر مکمل خاموش ہے اور انھوں نے تاحال کوئی موقف نہیں دیا اور ان سے رابطہ کرنا بہت مشکل ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ طالبان تو ایسے واقعات پر اپنا موقف جاری کردیتے ہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں کا تاحال اس پر کوئی موقف سامنے نہیں اسکا جن سے ابہام پیدا ہوجاتا ہے۔
کیا پاک افغان سرحد پر کشیدگی برقرار رہے گی؟
سیکیورٹی امور کے ماہر بریگیڈئر رستم شاہ مہمند اور صحافی طاہر خان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سرحد پر کشیدگی برقرار رہے گی کیونکہ جب تک پاکستانی طالبان سرحد پار افغانستان میں موجود ہونگے اور پاکستان کے سلامتی کو خطرات لاحق ہونگے تو سرحد پر کشیدگی برقرار رہیگی ۔ ان کے مطابق طالبان کا موقف ہے کہ انھوں نے افغانستان کے علاقوں میں راکٹ فائر کئے اور توپ خانے سے فائرنگ کی تو پھر ایسے حالات ہونگے کہ ایک وقت ائے گا کہ افغانستان کی حکومت بھی اس کا جواب دیگی اور کشیدگی بڑھے گی ۔ پاکستان اور اٖفغانستان کے درمیان ایک کشیدگی تو ہے اور پاکستان کو اس پر تشویش بھی ہے لیکن بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ حالات اس نہج پر نہیں جائینگے اور دونوں ملک سفارتی سطح پر معاملات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرینگے۔
کیا افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان مستقبل میں تلخی مزید بڑھے گی؟
تجزیہ کاروں کی رائے میں کہ افغانستان میں پاکستان کے حوالے سے ایک نفرت آمیز سوچ تو موجود ہے جو افغانستان کی تباہی کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستان اور افغان طالبان کے تعلقات تحریک طالبان پاکستان کے مستقبل کے ساتھ منسلک ہے کیونکہ کالعدم تحریک طالبان کی تمام لیڈر شپ افغانستان میں موجود ہے جو پاکستان میں مسلسل حملے کررہے ہیں ۔ تجزیہ کاروں اور سیکیورٹی امور کے ماہرین کے مطابق ماضی کے مقابلے میں پاکستانی طالبان میں گروپ بندیاں ختم ہوئی ہے اور اب وہ متحد ہوچکے ہیں اور سرحد کے اس پار پاکستان میں حملوں میں تیزی آئی ہے تو یہ بات ظاہر ہے کہ پاکستان پر دباؤ بڑھے گا تو پاکستان سرحد پار افغانستان میں جوابی کاروائی کریگا اور اس سے تلخی اور تعلقات مزید خراب ہونگے۔
صحافی اور تجزیہ کار طاہر خان رائے کو تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جیسے ہی پاکستان میں کوئی دہشتگردی کی کاروائی ہوتی ہے تو سوشل میڈیا پر طالبان کی جانب سے اُن کی تشہیر شروع ہوجاتی ہے جبکہ دوسری جانب جب افغان طالبان پاکستان اور ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے متنازعہ بیانات جاری کرتے ہیں تو اس پر بھی سوشل میڈیا پر ردعمل اتا ہے جس سے تلخی بڑھتی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت پاکستان اور افغان طالبان کے درمیا ن ایک تلخی موجود ہے اور دونوں کے بیچ حالات سازگار نہیں ہے۔