فلسطینیوں بارے بے قرار پاکستانی بہاری کمیونٹی کے لیے کیوں نہیں بولتے؟

عین ممکن ہے ترجیحات اور معاملہ فہمی بیک وقت حسینؑ سے بھی تعلق بنوا دیتی ہے اور یزید سے بھی یارانہ کروا دیتی ہے۔ بھلا بہاریوں اور فلسطینی عوام کا مقابلہ اور موازنہ کیا ہی کیوں جائے؟ اکثریت بشمول دانشور طبقہ، بہاریوں اور اردو بولنے والے پاکستایوں کو کمتر جانتی ہے۔ اپنے وسائل میں شراکت داری انہیں قبول نہیں۔

فلسطینیوں بارے بے قرار پاکستانی بہاری کمیونٹی کے لیے کیوں نہیں بولتے؟

میں نے پاکستانی بہاریوں کے لیے لکھنا شاید بند کر دیا ہے، بولنا بھی کم کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں سمجھدار ہو گئی ہوں۔ ہوا یوں کہ ایک نئے منجھدار میں ہوں۔ بے ترتیب، بے ربط، ادبیت سے عاری، شعریت سے مبرا، مقبول صحافتی معیار سے کوسوں دور اور ان پیڈ ایکٹیو ازم سے بھرپور۔ اس شکتہ دل اور دماغ (ہمیشہ ساتھ ہی رہے اور نرالی ترتیب میں دل میں دماغ رہا اور دماغ میں دل) میں بن بلائے مہمان کی طرح براجمان جوار بھاٹا کا کیا کروں؟

جی میں آتا ہے کہ پاکستانیوں کو داد دوں جو فلسطینیوں کے خلاف ظلم و بربریت پر کرکٹ میچ انجوائے کرتے ہوئے سخت غمگین اور غصے میں ہیں۔ جی میں یہ بھی آتا ہے کہ سوال کروں کہ کبھی مظلوم، بے گھر، بے وطن اور پاکستان سے غیر مشروط محبت کرنے والی بہاری کمیونٹی کا بھی درد محسوس کیا؟ ان کے لیے بھی آواز اٹھائی؟ پھر خود ہی اس خیال کو رد کر دیتی ہوں۔ اپنی کم ظرفی کو پہچان کر مزید اداس ہو جاتی ہوں۔ اپنے آپ کو کمانڈ دیتی ہوں، ڈیلیٹ! مگر وہ جوار بھاٹا! کیا کروں؟ کیا کروں؟ کیا کروں؟ کیا کروں؟

اضطراب کو کم کرنے کے لیے جرمنی کے اس سفر کو یاد کرتی ہوں جہاں ایک شہر میں ایک طرف تو انسانیت کو شرما دینے والے ستم ہوئے اور وہ شہر بے خبر رہا۔ وہ ظالم نازی اپنے بچوں اور خاندان کے لیے سراپا شفقت تھے۔

عین ممکن ہے ترجیحات اور معاملہ فہمی بیک وقت حسینؑ سے بھی تعلق بنوا دیتی ہے اور یزید سے بھی یارانہ کروا دیتی ہے۔ بھلا بہاریوں اور فلسطینی عوام کا مقابلہ اور موازنہ کیا ہی کیوں جائے؟ اکثریت بشمول دانشور طبقہ، بہاریوں اور اردو بولنے والے پاکستایوں کو کمتر جانتی ہے۔ اپنے وسائل میں شراکت داری انہیں قبول نہیں۔ یہ سوچنا بھی محال ہے کہ بنگلہ دیش میں محصور مزید تین سے چار لاکھ ان کے پاکستان میں پائے جائیں۔ لہٰذا بات ہی ختم رہی۔ فلسطینیوں کی طرف سے اس اسلامی قلعے میں پناہ لینے اور پھر NADRA سے الباکستانی شناخت لینے کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں۔ سو ان کے لیے سوشل میڈیا پر بین ڈالنا اور وہ امداد جو ان تک کبھی پہنچ ہی نہیں سکتی، نہایت پریکٹیکل اور بے خطر چوائس ہے۔

بے ثمر آگہی سے زیادہ کربناک اور پیچیدہ کیفیت کیا ہو گی؟ میں تمام بے بس انسانوں کی طرح اللہ کے ذکر میں پناہ ڈھونڈتی ہوں۔ ملالہ کے بیانیے سے انسپائر ہونے کی شعوری کوشش کرتی ہوں۔ تمام نوبل پرائز برائے امن کے منطقی رویوں کو سمجھنے کی ناکام کوشش کرتی ہوں۔ مہذب ممالک کے ویزے ملنے میں کوئی مشکل نہ ہو، اس لیے کوئی بے ضرر سی ٹویٹ تک نہیں کرتی۔

اللہ جانتا ہے کہ میری بے بسی اس کی بادشاہی جتنی لامحدود ہے۔ خدا تُو خاموش ہے۔ خدایا یہ ناقابل فراموش ہے۔

ڈاکٹر رخشندہ پروین سماجی کارکن اور ادیبہ ہیں۔