Get Alerts

نگوڑی بی بی، بھگوڑے مہاتما اور کُرم ایجنسی میں معصوموں کے قتل کی داستان

سماج کے اہل فکر و دانش کو طے یہ کرنا ہے کہ کیا وہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لیے نگوڑی ناٹھی عورت، نگوڑے ناٹھے مرد اور میدان سے راہ فرار اختیار کرنے والے بھگوڑوں کے کردار سامنے لائیں گے جو انتشار اور افراتفری کو عقیدہ بنا کر نسل کے تازہ اور صحت مند ذہنوں کو بیمار کر رہے ہیں؟

نگوڑی بی بی، بھگوڑے مہاتما اور کُرم ایجنسی میں معصوموں کے قتل کی داستان

یہ دور جدید کے ایسے انتشار پسند اور سماج کی تہذیب و شائستگی کو پارہ پارہ کرنے والے عقیدہ پرست نگوڑے کا قصہ ہے جو تمام تر شہرت کے باوجود بے بس و لاچار پڑا اڈیالہ کی دیواروں کو تک رہا ہے جبکہ دوسری جانب باپردہ نگوڑی انتشار پسندوں کی جھانسی بنتے بنتے تحریک انصاف کی سیاست کی بربادی کا نشان بن چکی ہے۔ قدیم اردو بولی کے روہتکی لہجے جیسا کہ 'ہے کیسی یہ نگوڑی ناٹھی' یعنی کیسی بدنصیب اور بدبخت ہے جو لاوارثوں کی مانند سب کے لیے منحوس ثابت ہو رہی ہے۔ یہ ہمارے اردو نکتہ دانوں کی وہ مثل ہے جس کے ذریعے وہ کسی کے عمل سے اس کا نفسیاتی جائزہ لیا کرتے تھے اور بس شخصیت کے تمام نفسانی خواہشات کے پہلوؤں کا احاطہ کر کے تفصیل یا شخصیت کی تشریح کو ایک لفظ یا ایک جملے میں سمیٹ کر آنے والی نسل کے لئے تجرباتی جائزہ پیش کر دیا کر دیتے تھے تاکہ نسل کم وقت میں کسی بھی شخصیت کی خاصیت یا اس کی ذات کے پہلوؤں کو جان سکے اور کوشش کر کے احتیاط پسند ہو جائے تاکہ وہ ہر صورت مستقبل کے دھوکے سے بچی رہے۔

یوں تو Hindu Methodology پدمنی، مرکھنی، اور کٹ خنی کی مثل سے بھی مالا مال ہے کہ جس میں وہ شائستہ اور غیر شائستہ خواتین کی تخصیص کرتی ہوئی ملتی ہے۔ اب چونکہ اس وقت سر دست ہم تازہ سیاسی واقعات کی روشنی میں نگوڑی بی بی کے تجربے سے گزر چکے ہیں سو آج نگوڑی بی بی اور بھگوڑے مہاتما پر گفتگو کا زاویہ رکھیں تو بہتر ہے۔

یہ اس ماہ کے اوائل کی بات ہے کہ عدالت نے نگوڑی بی بی کو جیل سے آزادی دلوائی اور آزادانہ فضا میں اس کے جمہوری حقوق کو استعمال کرنے کی آزادی دی مگر چونکہ اردو زبان میں نگوڑی کے معنی میں بدنصیبی بھی شامل ہے سو ہماری نگوڑی بی بی نے اپنی حرکات و سکنات اور عمل سے کم از کم تحریک انصاف اور اس کے چاہنے والوں پر اپنے نام کی بدنصیبی ایسے چسپاں کی ہے کہ شاید پاکستان کی سیاسی تاریخ ہمیشہ نگوڑی بی بی کی قیادت میں خیبر پختونخوا سے اسلام آباد کی لشکر کشی ضرور یاد رکھے گی۔

گو نگوڑی بی بی کا خیال تھا کہ وہ 1857 کی تحریک آزادی کی جھانسی کی رانی لکشمی بن کر طاقت سے ٹکرا جائے گی مگر اس لمحے وہ بھول بیٹھی کہ جدوجہد اور آزادی کی راہ میں جھانسی کی رانی نے اپنے بیٹے دامودر کی قربانی دی تھی جبکہ نگوڑی بی بی اپنے پوتوں اور نگوڑے خان کے پوت سلیمان اور قاسم کو محفوظ کر کے شاید جھانسی کی رانی بننا چاہ رہی تھی جس کی راہ میں برصغیر کی سیاسی تاریخ رکاوٹ بن گئی اور یوں نگوڑی بی بی نے عمران سمیت ہزاروں پارٹی کارکنوں کی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کر کے گنڈاسے تھامے بھگوڑوں کے ہمراہ میدان چھوڑنے کو ترجیح دی اور پھر نگوڑی بی بی گنڈاسے تھامے بھگوڑے کی ہمراہی بن کر مانسہرہ سے ہوتی ہوئی پشاور جا نکلی اور دوبارہ سے نگوڑی چادر تان لی۔

یہ کسی پر طنز ہے اور نا ہی کسی کے خلاف غلط بیانی، بلکہ یہ ہمارے ملک کے دارالخلافہ کے ان دلسوز واقعات کی داستان ہے جو اس ملک میں 26 نومبر کو ' حقیقی آزادی' دلانے کے نام پر ملک کے سیاسی کارکنوں سے زیادہ انتشاریوں نے رقم کی۔ سوشل میڈیا کی آنکھ نے ان میں وہ بلوائی بھی دیکھے جو جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور انہوں نے نگوڑی بی بی کی جائے پناہ والے کنٹینر کو بھی بھسم کر دیا۔ وگرنہ بھاگم بھاگی میں کیسی افسوس ناک صورت حال جنم لیتی، یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ بھی بہتر ہی ہوا کہ گنڈاسے تھامے دھاڑتے بھگوڑے کی گاڑی بلوائیوں کی سنگ باری سے بچ نکلی، وگرنہ شاید گنڈاسہ بچتا اور نا ہی بال برابر بھگوڑا۔

بھاگنے تو عمران خان کو 9 مئی کے جرائم کی منصوبہ بندی کرنے کے جرم میں لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بھی نہ دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مذکورہ عدالتی فیصلے کے بعد تحریک انصاف کون سا نیا غیر سیاسی بیانیہ گھڑنے کی کوشش کرتی ہے؟

ملک کے غیر سنجیدہ سیاسی حالات کی روشنی میں نگوڑی بی بی اور بھگوڑے مہاتما کی حماقتی حکمت عملی کے درمیان ہمارے صحافی دوست طلعت حسین درد دل سے کُرم ایجنسی میں سسکتے بلکتے معصوموں اور بے بس لاشوں کے اعداد و شمار کو طشت از بام کرتے ہوئے تصدیق کر رہے ہیں کہ بار بار دارالخلافہ پر حملہ آور گنڈا پور حکومت کی بے حسی اور عوام کے قتل پر بے پرواہی کے نتیجے میں کُرم ایجنسی میں نہتے عوام کے خون بہا کے نتیجے میں اب تک 116 بے گناہ افراد موت کی نیند سلا دیے گئے ہیں جبکہ 152 افراد شدید زخمی حالت میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور ان میں 52 افراد ایسے ہیں جن کو ایک ہلے میں دہشت گردوں نے بھون کر رکھ دیا ہے۔

طلعت حسین جگ کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ نگوڑی بی بی اور گنڈاسے تھامے بھگوڑے کا خیبر پختونخوا وہ بدنصیب صوبہ ہے جہاں کُرم ایجنسی کے نہتے عوام پر گولیاں برسائی جا رہی ہیں اور وہاں کے وزیر اعلیٰ گنڈا پور ایک وڈیو میں پیغام دیتے سنائی دے رہے ہیں کہ 'یہ وقت اسلام آباد پر لشکرکشی کا ہے لہٰذا کُرم ایجنسی کے قتل و غارت کو زیادہ زیر بحث نہ لاؤ'۔

آج کے لمحے کا اہم سوال یہ ہے کہ حق و سچ کا قلم تھامنے کے دعوے کرنے والوں کی جان بلبی اس لمحے کیوں نہ جاگی جب کُرم ایجنسی میں عمرانی ٹولے کی خیبر پختونخوا حکومت میں نہتے عوام کی بے دردی سے نسل کشی کی جا رہی تھی؟ صحافت کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنے والے صحافتی قلم کار کیا صحافت کے مقدس پیشے کو دریدہ نہیں کر رہے؟ کیا کسی خاص نکتہ نظر سے رپورٹنگ کو صحافت یا اس کی اقدار کی کسوٹی پر رکھ کر سراہا جا سکتا ہے؟ پکڑے جانے پر مظلوم بننے کی کوشش کیا صحافت کی چادر پر غیر منصفانہ صحافت کے داغ دھو سکے گی؟

ایسا نہیں کہ ہمارے ہاں نری نگوڑی ناٹھی عورتیں ہی پائی جاتی ہیں بلکہ نگوڑے ناٹھے جاں بہ لب وہ مرد بھی ہیں جو بے رحمی اور شقی القلبی سے معاش کے الو کو سیدھا کرنے کے لئے من پسند بیانیے گھڑتے ہیں اور اپنی خواہشات کی تکمیل یا ایجنڈے کے لئے صحافت کو استعمال کرتے ہیں۔ بس اس سماج کے اہل فکر و دانش کو طے یہ کرنا ہے کہ کیا وہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لیے نگوڑی ناٹھی عورت، نگوڑے ناٹھے مرد اور میدان سے راہ فرار اختیار کرنے والے بھگوڑوں کے کردار سامنے لائیں گے جو انتشار اور افراتفری کو عقیدہ بنا کر نسل کے تازہ اور صحت مند ذہنوں کو بیمار کر رہے ہیں؟

وارث رضا صحافی ہیں اور کراچی سے تعلق رکھتے ہیں۔