ساہیوال میں ہونے والا جعلی مقابلہ جو انسداد دہشت گردی کے محکمے (سی ٹی ڈی سی) نے کیا اس کے نتیجے میں چار جانوں کا زیاں ہوا اور اس واقعے نے متعدد سوالوں کو جنم دیا ہے۔ حکام کے مطابق یہ آپریشن خفیہ معلومت کی بنیاد پر کیا گیا تھا جس کے مطابق جو افراد اس آپریشن میں مارے گئے ان کا تعلق دہشت گرد تنظیم داعش کے ساتھ تھا اور وہ دہشت گردانہ حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ اس مؤقف کے بعد ایک اور نیا مؤقف سامنے آیا جس کے مطابق مارے جانے والے چار افراد میں سے ایک ذیشان جاوید نامی شخص ہی واحد مجرم تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بدقسمت دن جن باقی تین افراد نے جان گنوائی وہ بے گناہ تھے۔ سی ٹی ڈی کا یہ دعویٰ کہ ذیشان کے داعش کے ساتھ روابط تھے تضادات کا شکار نظر آتا ہے اور ذیشان کے ہمسائیوں نے اس دعوے کو جھوٹ قرار دیا ہے کیونکہ پڑوسی ہونے کے ناطے وہ ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے۔ اسی وجہ سے انسداد دہشت گردی کا محکمہ اس وقت سفاکانہ طور پر چار بے گناہوں کی جان لینے کی وجہ سے عوامی حلقوں کی جانب سے کڑی تنقید کی زد میں ہے۔ یہ واقعہ اس سوال کو بھی جنم دیتا ہے کہ کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تفویض کردہ وہ لامحدود اختیارات جو انہیں چند سال پہلے ملک میں دہشت گردانہ حلموں کی باعث دیے گٙئے تھے انہیں اب واپس نہیں لے لینا چاہیے؟
آئی ایس آئی اس آپریشن میں شریک تھی کیونکہ انٹیلیجنس معلومات جن کی بنیاد پر یہ آپریشن انجام دیا گیا wo رپورٹوں کے مطابق آئی ایس آئی کی جانب سے فراہم کی گئی تھیں۔ پنجاب حکومت نے سانحہ ساہیوال کے بعد سی ٹی ڈی کے محکمے کے ڈائریکٹر سمیت چار ملازمین کو ملازمت سے برطرف کر دیا۔ لیکن کیا محض معطل کیے جانے کی سزا پولیس اور سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے عرصہ دراز سے جاری جعلی مقابلوں کے مسئلے کا حل نکال سکتی ہے؟ اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان لوگوں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا جنہوں نے اس آپریشن کے بارے میں غلط انٹیلیجینس معلومات فراہم کیں؟
تجزیہ کار اعجاز حیدر کا کہنا ہے کہ یہ سیاسی اور عوامی دباؤ تھا جس کے باعث سی ٹی ڈی کے چار اہلکاروں کو معطل کیا گیا، لیکن اس ضمن میں ایک صاف اور شفاف تحقیقات ہونی چاہیے تاکہ اس واقعے کے ذمہ داران کا تعین کیا جا سکے۔ جب تحقیقات مکمل کیے بنا فیصلے جلد بازی میں لیے جاتے ہیں تو وہ محض آگ بجھانے اور عوامی غصے کو قابو میں رکھنے کیلئے ہوتے ہیں۔ کیا اس طرح کے حساس نوعیت کے فیصلے محض عوامی جذبات کی بنیاد پر لیے جا سکتے ہیں؟ آئی ایس آئی کے کردار کے حوالے سے اعجاز حیدر کا کہنا تھا کہ "اس معاملے میں اہم سوالات یہ ہیں کہ کس نے معلومات حاصل کیں، انہیں اکٹھا کیا اور ان کا جائزہ لیا اور کس نے یہ آپریشن کرنے کی اجازت جاری کی ؟
تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے بھلے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس خصوصی اختیارات موجود ہوں یا نہ ہوں۔ ان کے مطابق اس مسئلے کا نظام پولیس کو بہتر بنانا اور ایسی پالیسی مرتب کرنا ہے جو افسر شاہی کی جانب سے نہ بنائی گئی ہو۔ عائشہ صدیقہ کا مزید کہنا ہے کہ جعلی مقابلوں کا یہ سلسلہ 90 کی دہائی سے شروع ہوا تھا۔ "پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی اور آئی جی اس طرح کے جعلی مقابلے کرنے کی اہلیت کی بنیاد پر چنے جاتے ہیں"۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سکیورٹی ایجنسیوں کے پاس جو خصوصی طاقت موجود ہے وہ دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں انہیں حاصل نہیں ہوئی تھی بلکہ یہ ہمیشہ سے ان کے پاس تھی۔ اس طرح کے مقابلوں میں احتساب کے نظام کا موجود نہ ہونا جعلی مقابلوں کے رجحان کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی ایجنسیوں کے احتساب کے عمل کا آغاز ہونا چاہیے تاکہ وہ بنا انصاف اور قانون کے تقاضوں کو پورا کیے لوگوں کی جانیں لیکر قانون کی گرفت سے بچتے نہ رہیں۔
عائشہ صدیقہ نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم اتھارٹی (NACTA) کی غیر تسلی بخش کارکردگی کے بھی سخت ناقد ہیں۔ ناکٹا کا انٹیلیجنس ونگ فوج کے اختیار میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماورائے عدالت قتل اور جعلی مقابلوں کے مسئلے کی بنیاد تہہ در تہہ موجود لاتعداد مسائل ہیں۔ عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ "انٹیلیجنس معلومات کے تبادلے میں موجود تمام ایجنسیوں اور محکمہ جات کے درمیان بہترین ربط موجود ہونا چاہیے۔ پولیس کی اصلاحات کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں کا سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے اقدامات کی تشہیر کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے نظام کی اصلاح کا مطلب اس ادارے پر شخصی اختیار ہرگز بھی نہیں ہے، کیونکہ اس سے اعلیٰ افسران احتساب کے دائرے میں نہیں آئیں گے جو ایسے اقدامات کی منظوری دیتے ہیں۔ عائشہ صدیقہ کا ماننا ہے کہ "سکیورٹی ایجنسیوں کی بہتر مینیجمنٹ اور ان کا احتساب جعلی مقابلوں کے رجحان کو ختم کرنے کا باعث بن سکتا ہے"۔
مصنفہ نیا دور سے منسلک ہیں، کاؤنٹر ٹیرر ازم، انسانی حقوق اور اظہار کی آزادی ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ ٹوئٹر پر @ailiazehra کے ہینڈل پر اور ailiazehra2012@gmail.com پر ای میل کے ذریعے ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے