ترقی یافتہ، مہذب اور فلاحی ممالک کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں ہر انسان کو برابری کے حقوق حاصل ہیں۔ انصاف سب کے لئے یکساں ہے۔ بڑے چھوٹے اور امیر غریب میں کوئی فرق روا نہيں رکھا جاتا۔ بچوں، عورتوں اور بزرگوں کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ انسانيت کو رنگ، نسل، مذہب اور برادری پر فوقیت دی جاتی ہے۔
ہمارا پیارا دین اسلام بھی ہمیں ایسا ہی درس دیتا ہے۔ انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے۔ عورتوں ،بچوں، مردوں اور بزرگوں کے بارے ميں واضح اور مفصل احکامات موجود ہیں۔ کسی عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر فوقیت دیے بغير انسانیت کو فوقیت دی گئی ہے۔ انصاف کے ترازو میں سب کو برابر تولنے کے واضح احکامات موجود ہیں۔
وطن عزیز کی طرف دیکھیں تو یہاں انسان اور انسانیت کے بے وقعت ہونے کا احساس شدید سے شدید تر ہو جاتا ہے۔ رنگ ، نسل، برادری، مذہب اور مالی حیثیت کو انسانیت پر فوقیت دی جاتی ہے۔ اخبارات کے صفحات انسان اور انسانیت کی تذلیل کے واقعات سے بھرے ہوتے ہیں۔ انصاف بھی سب کے لئے برابر نہیں۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اغیار کی برائیوں سے تو فوراّ متاثر ہو جاتے ہیں مگر ان کی خوبیوں اور اچھائیوں پر آنکھیں موند لیتے ہیں۔ ہم نہ تو ترقی یافتہ ممالک اور نہ ہی دین اسلام کے معاشرتی نظام کو اپنا سکے۔
زینب اور اس جیسے بے شمار بجوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات اور حالیہ دل دہلا دینے والے سانحہ ساہیوال نے ہر کسی کو رنج اور دکھ میں مبتلا کر دیا ہے۔ پوری قوم غم اور غصے کی کیفیت سے دوچار ہے۔ ان غیر انسانی اور درندگی سے بھرپور واقعات نے ہماری انسانی و اخلاقی قدروں اور ہمارے نظام پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔
ماورائے عدالت قتل اور فرضی پولیس مقابلے کا کسی مہذب معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بغیر ثبوت کسی کو قتل کرنا اور وہ بھی معصوم بچوں کے سامنے ان کے پیاروں کو گولیوں سے چھلنی کر دینا کہاں کا انصاف ہے؟
ستم ظریفی ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے واقعات تواتر سے ہو رہے ہيں مگر کبھی بھی انصاف کے تقاضے پورے کر کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا نہیں دی گئی اور اسی وجہ سے آئے روز ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
کسی بھی مہذب ملک و معاشرے کا خاصہ اس کا فوری اور يکساں نظام عدل و انصا ف ہوا کرتا ہے۔ انصاف کے ترازو ميں امير غريب، چھوٹا بڑا سب برابر ہونے چاہئيں۔ انصاف ہوتا نظر آنا چاہيے اور انصاف بھی ايسا ہو جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ ترقی یافتہ ممالک کا ایک اہم خاصہ ان کی مضبوط اور آزاد عدلیہ بھی ہے۔ وہاں فیصلے کسی دباؤ اور مصلحت کے بجائے قانون اور آئین کے تحت کیے جاتے ہيں۔ امیر ہو یا غریب قانون کی نظر میں سب برابر ہيں۔ انصاف سالوں کے بجائے گھنٹوں اور دنوں میں فراہم کیا جاتا ہے۔ انصاف ہوتا دکھائی دیتا ہے اور قانوں و آئین کے تابع کیے گئے فیصلے ہر کوئی کھلے دل سے قبول کر لیتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارا نظام عدل امیر و غریب اور طاقتور و کمزور کو مساوی، فوری اور شفاف انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ فیصلوں تک پہنچنے میں سالہا سال لگ جاتے ہيں۔ غریب اور کمزور حصول انصاف کی دہائیاں دیتے رہتے ہیں جبکہ انصاف کے ترازو کے پلڑے کا جھکاؤ طاقتور اور صاحب حیثیت کی طرف محسوس ہوتا ہے۔
اصلاح احوال کے لئے ضروری ہے کہ زير التوا لاکھوں مقدمات کے فيصلے ہنگامی بنيادوں پر انصاف کے تمام تقاضے پورے کر کے ہونے چاہئيں۔ فريقين کو صفائی اور اپنے دفاع کے بھرپور اور مساوی مواقع ملنے چاہئيں۔
غريب اور مالی استعداد نہ رکھنے والوں کو رياست کی طرف سے بہترين وکيل کی سہولت ملنی چاہيے۔ جھوٹی شہادتوں اور ثبوتوں کا سلسلہ ختم ہونا چاہيے۔ نظام عدل کو سائنسی اور آن لائن بنيادوں پر استوار کرنا چاہيے۔ عدالتی عمل کو خفيہ نہيں رکھنا چاہيے۔ عدالتوں میں تعیناتياں غير جانبدار اور آزاد کميشن یا طريقہ کار کے ذريعے ہونی چاہئیں۔ ایسے بے داغ ماضی اور کردار کے حامل افراد تعينات ہونے چاہئیں جن پر کوئی بھی انگلی نہ اٹھا سکے۔
پسند و ناپسند کے بجائے آئين اور قانون کے مطابق فيصلے ہونے چاہئيں۔ فيصلے کے خلاف اپيل کا پورا حق ملنا چاہيے۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے اپيل کی سماعت ابتدائی فيصلہ کرنے والے کے بجائے غير جانبدار کمیشن ميں ہونی چاہيے۔
مجرم اور قصور وار کو آئين اور قانون کے مطابق کڑی اور عبرتناک سزائيں ملنی چاہئيں تاکہ ديگر جرائم پيشہ عناصر کی حوصلہ شکنی ہو۔ دہشت گردوں ملک دشمن عناصر کے مقدمات فوجی عدالتوں کی طرز پر چلنے چاہئيں۔ بغیر مقدمے، ثبوت اور صفائی سزا کی کسی طور بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
قارئين، وطن عزيز کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کرنا وقت اور حالات کی اشد ضرورت ہے۔ عوام کو یکساں، فوری اور شفاف انصاف فراہم کرنا حکومت وقت کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔ ساہیوال جیسے واقعات کی شفاف اور فوری تحقیقات کر کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دینے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔
مصنف پیشے سے انجینئر ہیں اور ساتھ ایم بی اے بھی کر رکھا ہے- لکھنے سے جنون کی حد تگ شغف ہے اور عرصہ دراز سے مختلف جرائد اور ویب سائٹس میں لکھ رہے ہیں