'عمران خان کو اس وقت اپنی گرفتاری کی سب سے زیادہ پریشانی ہے'

'عمران خان کو اس وقت اپنی گرفتاری کی سب سے زیادہ پریشانی ہے'
پاکستان میں سیاست اس وقت ٹھیک نہیں ہوگی جب تک تحریک انصاف باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ نہیں بیٹھتی، اور وہ اس وقت تک نہیں بیٹھیں گے جب تک وہ ان مراحل سے نہیں گزرتے جن سے باقی سیاسی جماعتیں گزری ہیں۔ یہ کہنا تھا سینیئر صحافی ضیغم خان کا جن کے مطابق عمران خان کی 'جیل بھرو' تحریک کی کامیابی ممکن نظر نہیں آتی۔

ضیغم خان کا کہنا تھا کہ جیل بھرو تحریک بہت مشکل ہوتی ہے، عمران خان کے لئے لوگ ویسے نہیں نکلیں گے جس طرح 80 کی دہائی کی پیپلز پارٹی کے جیالے نکلتے تھے۔ جیل میں جا کر لوگ بہت ذلیل ہوں گے، حکومت کسی بھی جگہ کو جیل ظاہر کر سکتی ہے، عمران خان کے حالیہ فیصلوں سے لگتا ہے کہ وہ بہت پریشان ہیں اور خاص کر وہ لاڈلہ پن ختم ہونے کے بعد تو بہت ہی پریشان ہیں۔ عمران خان کو اس وقت اپنی گرفتاری کی سب سے زیادہ پریشانی ہے۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو' خبرسے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے ضیغم خان نے کہا کہ تحریک انصاف پر بہت پہلے سے لوگوں کو تشدد پہ اکسانے کے مقدمات بننے چاہیے تھے۔ عمران خان نے جوالزام زرداری صاحب پہ لگایا ہے اس سے زرداری صاحب کی جان خطرے میں پڑ گئی ہے۔

شیخ رشید نے بھی ویسا ہی کام کیا ہے، اس کے باوجود بغاوت کے مقدمات نہیں بنانے چاہئیں۔ تحریک انصاف اب بھی یہ نہیں کہہ رہی کہ جو انہوں نے کیا وہ بھی غلط تھا اور جو اب ہو رہا ہے وہ بھی غلط ہے۔ تحریک انصاف کو باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنا ہوگا۔ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔

صحافی عنبررحیم شمسی نے کہا کہ عمران خان اکیلے جیل نہیں جانا چاہتے، اب عمران خان ضمنی الیکشن پہ بھی نہیں کھڑا ہونا چاہ رہے، اب جیل بھرو تحریک ان کا ایک اور پتہ ہے جس کو وہ کھیل رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے حالیہ احتجاج کی کال میں وہ تعداد نظر نہیں آ رہی، مگر اب عمران خان اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کولوگوں کی پریشانی کا اندازہ نہیں ہے۔ عمران خان کے گرد گھیرا تنگ ہو گیا ہے اس لیے وہ اب اس طرح کے کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت کمزور ہے ، ان کے مشیروں کی تعداد 78 ہو گئی ہے، حکومت اسٹیبلشمنٹ پہ بھی انحصار کر رہی ہے۔ فواد چودھری کے خلاف بغاوت کا مقمہ نہیں ہونا چاہیے تھا یہ بھی حکومت کی کمزوری کوظاہرکرتا ہے۔ جو سیاستدان غلط زبان استعمال کرتے ہیں ان کے خلاف کریمینل کیس نہیں بنانے چاہئیں، بلکہ سول مقدمات بننے چاہئیں۔

تجزیہ کار مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ عمران خان کے پاس جب بھی طاقت آئی ہے انہوں نے اس کا بھرپور استعمال کیا ہے، پی ٹی وی پر حملہ کیا، عصمت جونیجو پر حملہ کیا اور لوگوں کو تھانوں سے زبردستی چھڑوایا، اب وہ عدم تشدد کی تحریک کی بات کر رہے ہیں۔ یہ ان کی اپنی پستی کو ظاہر کرتا ہے۔ جب وہ وزیر اعظم تھے تو کہتے تھے کہ اللہ کا شکر ہے کہ یہ لوگ عدم اعتماد کی تحریک لے کر آئے، اور یہ بھی کہتے تھے ان کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے، ان کی بار بار کال دینے کے باوجود لوگ باہر نہیں نکلے۔ عمران خان زبان کا بھرپور استعمال کر سکتے ہیں مگر وہ جیلیں نہیں بھر سکتے، پاکستان کے عوام پہلے ہی مہنگائی اور حالات کی وجہ سے جیل میں رہ رہے ہیں۔

پاکستان میں وکی پیڈیا پر پابندی

پاکستان میں وکی پیڈیا کی بندش پر بات کرتے ہوئے ضیغم خان کا نے کہا کہ وکی پیڈیا کوعام افراد لکھتے ہیں اور اس میں کوئی بھی ترمیم کر سکتا ہے اور یہ پلیٹ فارم آہستہ آہستہ بہت وسیع ہوا ہے۔ یہ کسی بھی چیزکو جاننے کے لئے مدد فراہم کرتا ہے، یہ علم اور تحقیق کا ایک پہلا زینہ بن چکا ہے، اس پر پابندی پاکستان کے لوگوں کے لئے بڑا نقصان ہوگا۔ یہ غیر منافع بخش ادارہ ہے۔

"جمال عبدالناصر نے کہا تھا کہ یوں لگتا ہے اسلام پاکستان میں نازل ہوا ہے، اور ابھی حال ہی میں نازل ہوا ہے۔ پاکستان میں اشرافیہ دائیں بازو سے بہت ڈرتی ہے۔ یہ اپنے فائدوں کے لئے انتہا پسندی کی حدوں کو چھو جاتے ہیں، یہ بزدلی اور ڈر کی علامات ہیں۔"

عنبر شمسی کے مطابق وکی پیڈیا پر پابندی ان کی ویب سائٹ پر احمدیوں کے بارے میں موجود مواد کی وجہ سے ہے۔ معلومات کو بوتل اور سرحدوں میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ کافی دنوں سے احمدی برادری کی عبادت گاہوں پر حملے ہو رہے ہیں، نکاح نامے میں بھی ختم نبوت کی شق آ گئی ہے، یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ وکی پیڈیا آزاد معلومات پر یقین رکھتا ہے اور اس میں کوئی بھی ترمیم کر سکتا ہے، اکیسیوں صدی میں معلومات کے آزاد طریتے کو آپ نہیں روک سکتے، اور ان کے اوپر پابندی بھی نہیں ہو سکتی۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ وہ معاملات جن میں حکومت کو نہیں پڑنا چاہیے ان سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔ چند ایک صفحات کی وجہ سے سارا وکی پیڈیا بند کر دیا گیا ہے۔ اس سے طالب علموں کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ حکومت کو ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔