مرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتشِ گُل سے ہے کہیں یہ چمن کو جلا نہ دے
4 جنوری 2011 کو سلمان تاثیر نے یہ شعر ٹوئٹ کیا تھا۔ اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد اسلام آباد کی کہسار مارکیٹ میں سلمان تاثیر کو ان کے اپنے ہی گارڈ نے کلاشنکوف سے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ یہ قاتل کوئی اور نہیں ممتاز قادری ہی تھا جس کو فروری 2016 میں سپریم کورٹ کے حکم پر پھانسی دی گئی تھی۔ سلمان تاثیر کا قصور اتنا تھا کہ انہوں نے ایک ایسی خاتون کے حق میں بات کی جس پر توہینِ مذہب کا الزام بعد ازاں سپریم کورٹ میں بھی غلط ثابت ہوا۔ آسیہ بی بی پر توہینِ مذہب کا الزام 2009 میں لگا تھا اور نومبر 2010 میں انہیں شیخوپورہ کی ایک عدالت نے سزائے موت سنا دی تھی۔ سلمان تاثیر نے اس کیس میں دلچسپی لی اور توہینِ مذہب سے متعلقہ قوانین میں بہتری کے لئے آئینی ترمیم کی حمایت میں بیان دیا۔ نیک نیتی سے کی گئی ان کی یہ کوشش ان کو بہت مہنگی پڑی۔
آج اس واقعے کو 8 سال گزر چکے ہیں۔ ممتاز قادری کو پھانسی بھی لگ چکی ہے اور آسیہ بی بی اس الزام میں بری ہو کر ملک سے باہر بھی جا چکی ہیں، لیکن ممتاز قادری کے نام پر مذہب کے ٹھیکیداروں کا ایک نیا گروہ جو منظرِ عام پر آیا ہے، اس جن کو بوتل میں بند کرنے میں ایک طویل عرصہ درکار ہوگا۔
ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد تحریکِ لبیک پاکستان وجود میں آئی جس نے ملک کے غیر سیاسی بریلوی طبقے کو ایک متشدد پلیٹ فارم فراہم کیا۔ اس طبقے کو عشقِ رسولؐ کے نام پر سیاسی طور پر متحرک کیا گیا۔ ستمبر 2017 میں لاہور کے این اے 120 میں محض 7000 ووٹ لینے والی اس جماعت نے نومبر 2017 میں اسلام آباد میں ایک طویل دھرنا دیا۔ یہ دھرنا ختمِ نبوت کے قانون میں ایک مبینہ ترمیم کے خلاف دیا گیا۔ کئی روز سڑکیں بند رہنے کے بعد بالآخر حکومت نے اس گروہ کے خلاف آپریشن کیا تو یہ آپریشن بھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو طاقت کے استعمال سے گریز کا مشورہ دیا۔ بالآخر حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی اور تحریکِ لبیک کے مطالبے پر وفاقی وزیرِ قانون زاہد حامد کو استعفا دے کر گھر جانا پڑا۔
2018 کے انتخابات میں ملک بھر میں اس جماعت نے لاکھوں کی تعداد میں ووٹ لیے۔ کراچی، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی متعدد سیٹوں پر جیتنے والے امیدوار اور runner-up کے درمیان ووٹوں کا مارجن تحریکِ لبیک کے ووٹوں سے کم تھا، جس سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ اس جماعت نے الیکشن پر ایک گہرا اثر چھوڑا۔
اس جماعت کے کارکنان نے تشدد کا ہر راستہ اپنایا۔ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف پر جامعہ نعیمیہ میں ایک لبیک کارکن کی جانب سے جوتا پھینکا گیا۔ سیالکوٹ میں سابق وزیرِ داخلہ خواجہ آصف کے چہرے پر سیاہی پھینکنے والا شخص بھی تحریکِ لبیک کا کارکن تھا اور نارووال میں احسن اقبال پر گولی چلانے والے شخص کا بھی دعویٰ تھا کہ وہ اس جماعت کے نظریات سے متاثر تھا۔
نومبر 2018 میں سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کی بریت کا فیصلہ کیا تو تحریکِ لبیک ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر آ گئی۔ تاہم، اس مرتبہ افواجِ پاکستان نے سخت مؤقف اپنایا اور بقول تحریکِ لبیک پاکستان رہنما پیر افضل قادری کے، انہیں دھمکی دی گئی کہ اگر دھرنا ختم نہ کیا گیا تو انہیں بھون دیا جائے گا۔ بعد ازاں ایک پولیس آپریشن میں تحریکِ لبیک کے لیڈران اور کارکنان کو بڑی تعداد میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے سربراہ خادم حسین رضوی کو بھی گرفتار کر کے کئی ماہ جیل میں رکھا گیا۔
تاہم، ان کی رہائی کے بعد سے وہ متعدد مرتبہ حکومت کے خلاف تند و تیز تقاریر کر چکے ہیں۔ وہ بارہا وزیر اعظم عمران خان پر بھی توہینِ مذہب کا الزام لگا چکے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اگلے چند ماہ میں عمران خان حکومت کے خلاف بھی یہ لوگ ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئیں۔
اس جماعت کے لئے ممتاز قادری ایک شہید اور روحانی رہنما کا درجہ رکھتا ہے۔ ممتاز قادری کے جو بھی عقائد تھے، وہ ایک پولیس کا ملازم ہونے کے ناطے سلمان تاثیر کی حفاظت پر مامور تھا۔ اس نے نہ صرف اپنے فرض میں کوتاہی برتی بلکہ اپنے اہم عہدے کی تذلیل بھی کی۔ اس شخص نے رسولِ اکرمؐ کی ذاتِ مبارک کے نام پر قتل کیا۔ کیا یہ قتل اسلامی عقائد کے مطابق ہے؟ اس پر جیّد علما اور مفکرین کی مصدقہ تشریحات اور فتاویٰ موجود ہیں جن کے مطابق قتل جیسے گھناؤنے جرم کا ارتکاب دراصل توہینِ مذہب ہے۔ قرآنِ پاک میں کہیں بھی توہینِ مذہب کی سزا کا ذکر سرے سے موجود ہی نہیں۔ ممتاز قادری نے پاکستان میں مروجہ قوانین جن کو متعدد بار قرآن اور سنت کی روشنی میں تبدیل کیا گیا ہے، سے بھی روگردانی کی۔
اور یہ بھی ذہن نشین رہے کہ عدالت نے ممتاز قادری کو پورا موقع فراہم کیا کہ وہ سلمان تاثیر کی مبینہ گستاخی کو قانونی طور پر ثابت کرے لیکن وہ اس میں بھی ناکام رہا، جس کے بعد عدالت نے اسے سزائے موت سنائی۔ ممتاز قادری کو ایک روحانی مرتبہ عطا کرنا اس لئے بھی نامناسب ہے کہ اس نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا اور بلا تصدیق اور قانونی عمل کی پیروی کرنے کے بجائے خود منصف، مدعی اور جلاد بن گیا۔
قرآن کے مطابق تو ایک بیگناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ پوری انسانیت کے قاتل کو بزرگی کا درجہ کیسے دیا جا سکتا ہے؟
دوسری جانب سلمان تاثیر کی legacy یہی ہے کہ کمزور کے لئے آواز اٹھائی جائے۔ محکوم طبقوں کے لئے ہر حال میں ڈٹ جایا جائے، اور انسانیت کو مذہبی عقائد پر فوقیت دی جائے۔ یہ سلمان تاثیر کی قربانی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج آسیہ بی بی زندہ ہیں اور ملک سے باہر ایک محفوظ زندگی گزار رہی ہیں۔ یہ ان کے اپنے مؤقف کے لئے ڈٹ جانے ہی کا ثمر ہے کہ پاکستان کی جیلوں میں قید اس الزام کے دیگر قیدی انصاف کی امید رکھتے ہیں۔ سلمان تاثیر نے اپنے مؤقف کو سچ جانا اور اس کے لئے سقراط کی مانند زہر کا پیالہ پینے پر تیار ہو گئے۔
آج پاکستان کو ایسے ہی دلیر اور حق کے لئے لڑ جانے والے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو اس ملک کے عوام کو مذہبی انتہا پسندی سے نجات دلائیں، اور اس کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔