بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں مارچ 2022 میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں جہاں پچھلے 5 سال بی جے پی کی حکومت ہے اور موکھ منتری آدتیہ ناتھ یوگی ہیں جو کہ بہت دھماکے شخص ہیں۔ وہ اپنی سیاست ہمشہ سے مذہبی بنیادوں پر کرتے ہیں، وہ بال براہماچاری ہیں اور ہنومان کے ماننے والے ہیں۔ ہنومان کے ماننے والے اپنی زندگی دھرم کے نام کرتے ہیں اور ساری زندگی شادی نہیں کرتے، ان کا پہناوا گیروے رنگ کا ہوتا ہے۔
یوگی کے مقابلے میں سابقہ موکھ منتری اکلیش یادیو ہیں جو سماج وادی پارٹی کے لیڈر ہیں اور کانگریس کے اتحادی ہیں ،یوپی اتر پردیش بھارت کی سیاست کا رخ متین کرتی ہے وہاں کہاوت ہے کہ جس نے لکھنؤ جیتا ااس نے دلی جیتا ،لکھنو اتر پردیش کی راج دھانی ہے اور بھارت کا اہم ترین شہر ہے۔
یو پی کے ریاستی الیکشن کے بعد واضح ہو جائے گا کہ 2023 میں دہلی میں سرکار کون بنائے کیونکہ یوپی میں لوک سبھا کے سب سے زیادہ 80 سیٹوں پر الیکشن ہوتے ہیں۔ اس وقت یوپی میں بی جے پی کی یوگی سرکار کی سیاسی پوزیشن کو کمزور سمجھا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ پردھان منتری نریندر مودی نے لکھنؤ میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور آئے روز کسی نہ کسی منصوبے کا افتتاح کرتے نظر آرہے ہیں۔
یوگی سرکار نے اپنے سیاسی مخالفین اکھیش یادیو کے حمایت کرنے والوں کے خلاف انتقامی کارروائی شروع کر دی اور سماج وادی پارٹی کے سپانسروں کے خلاف انکم ٹیکس کے چھاپے پڑوانے شروع کر دیے ہیں تاکہ ان کو پریشان کیا جا سکے۔ یوگی سرکار کے پانچ سال سے یوپی کے لوگ کچھ خوش نہیں دکھائی دیتے، نہ وہ اچھی کارکردگی دکھا سکے بلکہ الٹا اقلیتوں مسلمانوں اور مسیحوں کو کو پریشان کرتے رہے۔
یوگی سرکار کا موقف ہے کہ وہ شہر جو مسلمانوں کے ناموں پر ہیں انکے نام اس لیے بدلے ہیں کیونکہ تاریخی طور پر انکے نام ہی ہیں مسلمان حملہ آور جب یہاں آتے لوٹ مار کرتے تو ہندو ناموں کو بدل کر مسلمان نام کر دیتے ہیں۔ الٰہ باد کانام بدل کر پریا گراج رکھ دیا گیا ہے ،الٰہ باد نام مغل شہنشاہ اکبر نے رکھا تھا۔ الٰہ آباد ہندو مت میں بہت تاریخ کا حامل ہے۔
پریس میں ہر بارہ سال بعد دریائے گنگا اور جمنا کے سنگم پر کمبھ میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے، اس طرح ریلوے اسٹیشن کا نام مغل سرائے سے بدل کر دین دیال اپادھیائے رکھ دیا، اس طرح فیض آباد شہر کا نام بدل کر ایودھیا رکھ دیا گیا جو کہ بہت قدیم اور تاریخی نام تھا۔ تاریخ دان اس معاملے کو اپنے انداز سے دیکھتے ہیں اور سیاست دان اپنے انداز سے، بہرحال یہ ایک بحث طلب بات ہے کہ بھارت میں پہلے مسلمان اور بعد میں مسیحی حملہ آور قبضے کے بعد وہاں کی تاریخ کے ساتھ کیا کرتے رہے ہیں۔
ادھر پاکستان میں بھی ناموں کو تبدیل کرنے کی روایت بھارت سے پہلے کی ہے جیسے لاھور میں کرشن نگر کو اسلام پورہ، سوامی نگر کو محمد نگر، رام گلی کو رحمان گلی بنا دیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں مذہبی بنیادوں پر سیاست پہلے سے جاری ہے اور اب بھارت میں بھی شدت پسندی سے شروع ہوگئی ہے۔
بھٹوکی حکومت کے خلاف قومی اتحاد نے شرکت اسلام کا نعرہ لگایا، بے نظیر بھٹو کے نواز شریف نے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا ، مذہبی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل بنایا، اپنے انتخابی نشان کتاب کو قرآن مجید بتا کر ووٹ لیتے رہے ،اب عمران خان نے مدینے کی ریاست کا جو نعرہ لگایا ہے وہ بھی مذہبی کارڈ ہے ،جنوبی ایشیا کی سیاست مذہبی نعروں سے گونجتی رہی ہے اور اس سے معصوم انسانوں کا قتل عام ہوتا رہا ہے اب سماج کو بدلنے کے بنام مذہب سیاست نہیں انسانوں کے اصل مسائل جیسے بھوک ننگ تعلیم اور محت پر یکسوئی سے کام کرنے کا سوچنا چاہیے مگر افسوس کرونا وائرس کی تباہ کاریاں بھی ہمارے اندر کے انسان کو بیدار نہیں کر سکیں۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔