سینئر صحافی جاوید چودھری جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کرنے کے بعد اپنے 29 دسمبر 2022 کے کالم میں رقم طراز ہیں:
'کیا جنرل باجوہ نے اپنے دور میں کسی کو این آر او دیا؟ اس کا سیدھا سادہ جواب ہے جی ہاں جنرل باجوہ نے دو بار این آر او دیا تھا، پہلا این آر او 2017 میں عمران خان کو دیا گیا اور دوسرا عمران خان کے حکم پر 2021 میں آصف علی زرداری کو دیا گیا تھا۔'
جنرل باجوہ اور عمران خان کے زور دار عشق کے بارے میں جاوید چودھری کے انکشافات اِس سے قبل بھی کوئی راز نہ تھے کہ کیسے واضح ثبوتوں کے باوجود غیر قانونی بنی گالا محل کو جائز کرایا گیا اور نااہلی کیس میں عمران خان کو صادق و امین قرار دلوا کر این آر او دینے کے علاوہ جہانگیر ترین کو بَلی چڑھایا گیا۔
1987 سے قابلِ تعزیر سمجھے جانے والے آصف علی زرداری کے بارے میں جاوید چودھری کا انکشاف حیرت زدہ کر دینے والا ہے کہ جنرل باجوہ نے آصف علی زرداری کے مقدمات اِسلام آباد سے کراچی منتقل کروا کے این آر او دیا تھا، جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے الگ ہو گئی۔
آج کل کچھ صحافیوں کے ذریعے جنرل باجوہ اپنے احسانات کے واقعات عوام تک بہم پہنچا رہے ہیں کہ کیسے اِس تِشنہ محبت نے فردِ واحد کے طور پر کُھلے دل کے ساتھ اپنے دلبروں پر محبتیں نچھاور کرتے ہوئے قطعاً نہیں سوچا کہ ان کی نوازشات کی پاکستان کو کتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ جاوید چودھری کے مطابق جنرل باجوہ کہتے ہیں کہ اگر وہ پانچ فیصد بھی حقائق بیان کر دیں تو میر جعفر، میر صادق، غدار، جانور اور سازشی کہنے والے ان کے پیاروں کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔
یاد رہے یہ وہی لاڈلے عمران خان ہیں جو جنرل باجوہ کو باس باس کہہ کر تاحیات ایکسٹینشن لینے کی درخواستیں کر چکے ہیں۔ یہ درخواستیں امریکی سائفر آنے کے بعد کر رہے تھے (ویسے ہم سوچتے ہیں کہ اگر ہائبرڈ رجیم کے دوران چین، سعودی عرب، ترکیہ، متحدہ عرب امارات اور ملائشیا سے آئے سائفرز پبلک ہو جائیں تو اعظم خان کی ملمع سازی کے بغیر ہی حشر برپا ہو جائے)۔
آئین کیا ہے اور آرمی چیف کے اپنے فرائض منصبی کیا ہوتے ہیں؟ یہ اپنے حلف کی 'عین پاسداری' کرنے والے جنرل باجوہ اور عظیم صحافی جاوید چودھری سے بہتر کون جانتا ہو گا؟
جنرل باجوہ کی ہمالیائی 'اِخلاص مندی' کو دیکھ کر عش عش کر اُٹھنے کو دل کرتا ہے کہ وہ کس طرح عوام، پی ڈی ایم اور عمران خان کے علاوہ فوج میں اپنے کولیگز کے ساتھ وعدہ نبھاتے رہے اور اپنی عزت میں مزید اضافے کے لئے آج بھی سکون سے نہیں بیٹھ رہے۔
جنرل باجوہ اور عمران خان کی بے مثال داستانِ محبت پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن اس کالم میں ہم فقط آصف علی زرداری کے بارے میں چند حقائق بیان کرنا چاہتے ہیں، جن کے چشم دید گواہ سارے پاکستانی عوام ہیں۔
پی ڈی ایم بنانے والی پاکستان پیپلز پارٹی کا مؤقف تھا کہ عمران خان کی حکومت کو آئینی طریقے سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا جائے۔ مسلم لیگ (ن) نے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مل کر پی ڈی ایم کو شریف خاندان کی جاگیر بنا لیا۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے علاوہ پی ڈی ایم میں شامل تمام پارٹیوں کا سارا زور پارلیمنٹ سے استعفے دینے پر تھا۔ پی پی پی کا مؤقف تھا کہ استعفے آخری آپشن ہونا چاہئیے۔ استعفوں سے متعلق پیپلز پارٹی کے واضح مؤقف کے علم کے باوجود مسلم لیگ (ن) اور مولانا فضل الرحمان نے لانگ مارچ کو استعفوں سے نتھی کر دیا۔
انہی دنوں پی ڈی ایم کے اجلاس سے آصف علی زرداری نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کو کہا کہ میاں صاحب براہ مہربانی پاکستان تشریف لائیں، لڑنا ہے تو ہم سب کو جیل جانا ہو گا۔ اگر آپ جنگ کے لیے تیار ہیں تو لانگ مارچ ہو، استعفے دینے ہوں یا عدم اعتماد کا معاملہ ہو، آپ کو پہلے وطن واپس آنا ہو گا۔ اسمبلیوں کو چھوڑنا عمران خان کو مضبوط کرنے کے مترادف ہو گا۔ ہم جمہوری لوگ ہیں، جو پہاڑوں پر سے نہیں بلکہ پارلیمان میں رہ کر لڑتے ہیں۔ مجھے کسی کا کوئی ڈر نہیں تاہم جدوجہد ذاتی عناد کے بجائے جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے ہونی چاہئیے۔ میں جنگ کے لیے تیار ہوں مگر شاید میرا ڈومیسائل مختلف ہے۔ آپ پنجاب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ میں نے پارلیمان کو اختیارات دیے۔ ہم نے اٹھارھویں آئینی ترمیم پاس کروائی اور این ایف سی منظور کیا، جس کی مجھے اور میری پارٹی کو سزا دی گئی۔ ہم اپنی آخری سانس تک جدوجہد کے لیے تیار ہیں۔ ہمارا انتشار جمہوریت کے دشمنوں کو فائدہ دے گا۔
آصف علی زرداری کے خطاب پر مسلم لیگ (ن) مرغِ بسمل کی طرح تڑپنے لگی اور پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ آصف علی زرداری بُزدلی دِکھا رہے ہیں اور پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ سے مل گئی ہے۔
پروپیگنڈہ کرنے والے یہ بھول گئے کہ جس آصف علی زرداری نے اپنی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ایسی شریکِ حیات گنوائی، بے گناہ عمر قید کاٹی اور قدم قدم پر اکلوتے بیٹے کی نعش اُٹھانے کی دھمکیاں سہی ہیں، پچھلے 35 سالوں سے جُھوٹے مقدمات کا سینہ تان کر مقابلہ کر رہے ہیں، آئینی اداروں پر حملہ نہیں کرتے اور جاگ پنجابی جاگ کی بجائے پاکستان کھپے کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ہر قسم کی تکالیف برداشت کرتے ہوئے آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے جمہوریت کی مضبوطی کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور سب سے اہم بات کہ اپنی ذاتی رنجشیں پس پشت ڈال کر فقط ملک و قوم کے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن پروپیگنڈہ کرنے والوں کی نظر میں آصف علی زرداری اِنتہائی بُزدل اور کمزور آدمی ہونے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ سے نہیں لڑ سکتے۔
اِس کے بالکل برعکس اُن کی نظر میں نواز شریف اپنے دونوں بیٹوں کو سینے سے لگائے عدالت سے مفرور اشتہاری ہونے کے باوجود شیر نڈر ہیں جو مشکل وقت میں آئین و قانون کو لتاڑتے اور مارشل لاء کو جائز تسلیم کرتے ہوئے راتوں رات جیل سے رہا ہو کر پورے خاندان کے ساتھ سرور پیلس اور پارک لین کے پُرتعیش ایون فیلڈ فلیٹس میں ریسٹ کرنے چلے جاتے ہیں۔ ببر شیر کہلانے کا یہ شوقین لاڈلا پاکستان واپس تب آتا ہے جب عدالتوں سے سب سزائیں ختم ہونے کی گارنٹی ملنے کے ساتھ ساتھ اِقتدار کا تخت سَج چکا ہوتا ہے۔ پروپیگنڈہ بریگیڈ یہ بھی بھول گئے کہ شریفین بارہا آصف علی زرداری سے جُھوٹے مقدمات بنانے اور کردار کشی کرنے پر معافیاں مانگتے آئے ہیں۔ یہ آصف علی زرداری کا ہی ظرف ہے جو انہیں معاف کرتے آ رہے ہیں۔
اس کے بعد شاہد خاقان عباسی نے پی ڈی ایم کو توڑنے کے لیے پیپلز پارٹی اور اے این پی کو شوکاز نوٹس بھیج دیا جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم سے راہیں جُدا ہو گئیں۔
بعد ازاں پی ڈی ایم میں باقی رہ جانے والی پارٹیاں استعفے دینے سے پیچھے ہٹ گئیں اور ناکام و نامراد واپس لوٹنے پر اُنہیں پیپلز پارٹی کا آئینی مؤقف ماننا پڑا اور عمران خان کو پارلیمنٹ کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا۔
اب دیکھتے ہیں کہ آصف علی زرداری کے مقدمات اِسلام آباد سے کراچی منتقل ہونے کے بارے میں کتنی صداقت ہے۔ ہائبرڈ رجیم کے دور میں کسی دلیل و ثبوت کے بغیر فقط الزامات لگا کر مقدمات بنا کر آصف علی زرداری اور اُن کی بہن فریال تالپور کو پابند سلاسل کر دیا گیا، جہاں بیمار آصف علی زرداری کو کوئی سہولت نہیں دی گئی، حتیٰ کہ دواؤں کے لیے درکار فریج تک مہیا نہ کیا گیا۔ پوری حکومتی طاقت کے باوجود رتی برابر کرپشن ثابت نہ ہوئی اور آصف علی زرداری کی ضمانت چھ ماہ بعد ہوئی۔ اِس کے بعد بھی آصف علی زرداری کا نام مسلسل ای سی ایل میں رہا۔ اِس دوران جنرل باجوہ آصف علی زرداری کو ملک چھوڑنے کا بار بار کہتے رہے جسے آصف علی زرداری نے مسترد کر دیا۔
بنیادی طور پر آصف علی زرداری کے مقدمات سندھ سے اسلام آباد منتقل کرنا ایک غیر آئینی عمل تھا۔ اگر وہی مقدمات جائز طور پر کراچی منتقل ہو جاتے تو اعتراض کی کوئی وجہ نہ تھی لیکن آج تک آصف علی زرداری کا ایک بھی مقدمہ کراچی منتقل نہیں ہوا اور وہ اسلام آباد میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اگر مقدمات کراچی منتقل نہیں ہوئے تو آصف علی زرداری کو این آر او کیسے ملا تھا؟
یہ بات بھی حیرت زدہ کر دینے والی ہے کہ جنرل باجوہ اور ان کے ساتھی صحافی نواز شریف کے بارے میں بالکل خاموش ہیں۔ جاوید چودھری نے اپنے 27 دسمبر 2022 کے کالم میں فقط اتنا لکھا ہے کہ جنرل باجوہ بار بار ذکر کرتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے انہیں ہمیشہ بہت عزت دی۔ وہ میاں نواز شریف کے خانساماں کی اچھی چائے کو بھی بہت یاد کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ این آر او نہ دینے کی تکرار سے قوم کے کان پکا دینے والے عمران خان کے دورِ حکومت میں سزا یافتہ مُجرم نواز شریف کو جیل سے آزاد کرنے کے بعد وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ لندن روانہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ سزا یافتہ مجرمہ مریم نواز بھی اپنے والد کی تیمار داری کے لیے ضمانت پر رہا ہوئیں۔ ان کے والد محترم تو لندن چلے گئے لیکن آٹھ ہفتے کی ضمانت کے بعد وہیں لندن میں جم کر بیٹھ گئے لیکن مریم نواز پاکستان میں موجود ہونے کے باوجود واپس جیل نہیں بھیجی گئیں۔ اس وقت نواز شریف مفرور اِشتہاری مُجرم ہیں جو دیگر سزاؤں کے ساتھ ساتھ 10 سال کے لیے پارلیمنٹ سے نااہل ہیں۔ اس سے قبل بھی موصوف تاحیات نااہل ہوئے تھے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ دوبارہ محبت کے بندھن میں بندھنے کے بعد یہ سزا جھٹ سے ختم کر دی گئی تھی۔ اب محبت کا دھارا پھر سے بہہ رہا ہے اور غالب امکان ہے کہ ایک بار پھر نواز شریف اور مریم نواز کی سزائیں معاف ہو جائیں گی۔ جنرل باجوہ کے حمایتی صحافیوں کا طرزِعمل بھی واضح طور پر اس امر کی گواہی دے رہا ہے۔
آصف علی زرداری کو این آر او دینے کا جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے والوں کے نزدیک شاید یہ جنرل باجوہ کا نواز شریف پر احسان تھا اور نہ ہی این آر او۔