نومبر میں امریکی صدارتی انتخاب ہونے جا رہا ہے۔ مگر ابھی تک یہ یقین سے کہنا مشکل ہے کہ اس مقابلے کو سر کرنے کا سہرا کس کے سر سجے گا۔ اس انتخاب میں ریپبلکن جماعت کی طرف سے موجودہ صدر ٹرمپ جبکہ ڈیموکریٹک کی جانب سے سابقہ امریکی نائب صدر بائیڈن میں نمایاں مقابلہ متوقع ہے۔ اگر مقبولیت کی بات کی جائے تو سفید فاموں کی اکثریت میں ٹرمپ کی مقبولیت نمایاں ہے جبکہ دوسری قوموں کی اکثریت میں بائیڈن کی مقبولیت زیادہ ہے۔ مگر صرف اسی ظاہری مقبولیت کی بنا پر کسی کی جیت کا اندازہ لگانا ابھی مشکل ہے۔
اگر پہلے سیاسی خامیوں کی بات کی جائے تو صدر ٹرمپ نے رواں برس کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے سلسلے میں بہت غیر موثر کردار ادا کیا اور انتظامیہ کی سست روی اور غیر سنجیدگی کی وجہ سے امریکہ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ مہلک وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں اور اسی طرح ہلاکتیں بھی دنیا کے دوسرے ممالک سے بڑھ کر ہیں۔ اگر وائرس کے شروع میں ہی ریاستی سطح پر عارضی لاک ڈاؤن کر دیے جاتے تو آج صورتحال قابو میں ہوتی۔ اس کے علاوہ ایک موقع پر صدر صاحب نے اپنی عقل سلیم کا استعمال کرتے ہوئے عوام کے لیۓ خود سے کرونا کی دوائی تجویز کر دی اور اس کے ساتھ ساتھ سینیٹائزر کو پینے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔ جس کو ان کے کچھ کٹر قسم کے مریدوں نے استعمال بھی کیا جو کہ ان کے استعمال کے بعد اس وقت عالم بالا میں موجود ہیں۔
کرونا کے پھیلاؤ کے بعد ملک کی اقتصادی حالت کو بھی دھچکا لگا اور جہاں کاروبار وقتی طور پر بند ہو کر ملک کی اقتصادی حالت کے لیۓ نقصان کا باعث بنے وہاں کچھ کاروبار وقتی جھٹکا بھی برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس کے علاوہ ملک میں بیروزگاری میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا اور بیروزگاروں کی مدد کرنے کا بوجھ بھی حکومتی خزانے پر آ پڑا۔
کرونا بحران کے دوران ہی ایک افریقی امریکن کے غیر قانونی قتل ہونے پر ملک میں نسلی تعصب کے خلاف مظاہرے شروع ہو گۓ اور ان مظاہروں کو شروع میں کنٹرول کرنے کی بجائے اور ان سے مصالحت کرنے کی بجائے صدر ٹرمپ نے ان سے سختی سے نمٹنے کا کہہ کر جلتی پر تیل ڈال دیا۔۔ جس سے صدر ٹرمپ کے خلاف نفرت میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ رواں برس کرونا کے پھیلاؤ کے بعد صدر ٹرمپ نے اسے چائنہ وائرس کا نام دیتے ہوئے چین کے ساتھ سفارتی اور تجارتی سطح پر سرد جنگ کا آغاز کر دیا جو کہ موجودہ صورتحال میں یقیناً دنیا کی معیشت کے لیۓ سنگین خطرے کی بات ہے۔
اب اگر صدر ٹرمپ کے دور صدارت کی چند خوبیوں کا جائزہ لیا جاۓ تو اس میں کوئ شک نہیں کہ ان کے دور میں کرونا کے پھیلاؤ سے پہلے تک ملک میں بیروزگاری کی سطح ریکارڈ حد تک کم ہو گئی۔ ٹرمپ کے دور میں ملک میں کاروبار میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ٹرمپ کے دور میں دنیا بھر میں امریکہ نے امن کی کوششوں کے لیۓ پچھلی حکومتوں سے زیادہ بھرپور کردار ادا کیا جس کی مثال افغانستان اور شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات میں بہتری ہے۔
بایئڈن کی خامیوں میں سے ظاہری طور پر تو یہی ہیں کہ وہ پچھلی حکومت میں نائب صدر تھے جب امریکہ مختلف ملکوں میں جنگوں میں شامل رہا جیسے کہ افغانستان،عراق اور پاکستان پر ڈرون حملے وغیرہ۔ اقتصادی طور پر امریکہ ٹرمپ کے دور میں کرونا سے پہلے تک زیادہ مضبوط تھا۔ بائیڈن کی خوبیوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ سوشل میڈیا کا بیوقوفانہ استعمال نہیں کرتے اور نسلی تعصب کے خلاف بھی اکثر اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ بائیڈن کی عمر پچہتر برس سے زیادہ ہے اور وہ اگر صدر بن بھی گئے تو کافی بوڑھے صدر ہوں گے۔ان کو اگر اپنی عمر کی وجہ سے پیشگی ریٹائرمنٹ لینی پڑ گئی تو ان کی نائب صدر کمالہ ہیرس(جو کہ ایک خاتون ہیں) صدر بن جائیں گی جو کہ یہی امید ہے کہ غیرملکیوں بالخصوص اپنے رنگ و نسل کے افراد کے لیۓ امریکہ کے دروازے کھول دیں گی۔ یہ بھی افواہ زیر گردش ہے کہ ان کے آنے سے پاکستانیوں کو کم اور انڈیا کے لوگوں کو بشمول انڈیا کو زیادہ مراعات ملنے کی امید ہے۔ چنانچہ اس افواہ کے پھیلانے والوں کے مطابق اس خطرے کو شکست دینے کے لیۓ بھی ٹرمپ کا دوسری دفعہ صدر بننا لازم ہے۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ دونوں امیدواران کے مثبت اور منفی پہلو اپنی جگہ موجود ہیں۔امریکی عوام کو چاہیۓ کہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے ووٹ کا حق ضرور استعمال کریں اور اللہ کرے کہ امریکہ پر وہ حکمران مسلط ہو جو امریکیوں میں رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر اتحاد پیدا کرنے والا ہو مزید برآں وہ دنیا کے امن کے لیئے اپنا بہترین کردار ادا کرنے والا ہو۔
احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔