'رانا ثناء اللہ اور صحافی عمر چیمہ پر تشدد کرنے والا ایک ہی شخص تھا'

'رانا ثناء اللہ اور صحافی عمر چیمہ پر تشدد کرنے والا ایک ہی شخص تھا'
معروف صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے اپنے کالم میں لکھا کہ رانا ثناء اللہ کیخلاف مقدمہ سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا ہے جس میں کوئی حقیقت نہیں ہے، ان کا کہنا تھا کہ رانا ثناء اللہ کے خلاف یہ مقدمہ قائم کرنے والوں کا انجام ان سے مختلف نہ ہوگا جنہوں نے آصف علی زرداری اور رحمت شاہ آفریدی پر ایسے ہی مقدمے بنائے تھے۔ آج عمران خان کی حکومت سیاسی مخالفین کے ساتھ وہی کچھ کر رہی ہے جو نواز شریف اور مشرف کی حکومت نے کیا تھا۔

انہوں نے لکھا کہ آپ رانا ثناء اللہ سے سیاسی اختلاف کر سکتے ہیں لیکن یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ وہ اپنی گاڑی میں منشیات لے کر گھومیں گے

حامد میر نے لکھا کہ رانا ثناء اللہ کو ماضی میں کئی بار سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا، اکتوبر 1999میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ختم ہوئی تو پارٹی کے اکثر رہنما گرفتار ہو گئے۔ ایک دن رانا ثناء اللہ پارٹی قیادت کو تلاش کرتے ہوئے لاہور پہنچے اور سردار ذوالفقار کھوسہ پر زور دیا کہ ہمیں مشرف حکومت کے خلاف تحریک چلانا چاہئے۔ اگلے ہی دن وہ گرفتار ہوگئے اور انہیں ایک تھانے میں الٹا لٹکا کر بہت مارا گیا۔ پھر ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے فوج کے خلاف نفرت انگیز پمفلٹ لکھا ہے اور غداری کا مقدمہ بنا کر انہیں عدالت میں پیش کیا گیا لیکن عدالت نے تین ماہ کے بعد انہیں رہا کردیا۔

حامد میر نے لکھا کہ 2002کے الیکشن میں رانا ثناء اللہ تیسری مرتبہ ایم پی اے بن گئے اور پنجاب اسمبلی میں مشرف حکومت پر تنقید کرنے لگے۔ 8مارچ 2003کو انہیں فیصل آباد میں کچھ نقاب پوشوں نے اغواء کیا اوران پر لوہے کی راڈیں برسائی گئیں۔ پھر جسم کے مختلف حصوں پر بلیڈوں سے زخم لگا کر ان پر پٹرول چھڑکا گیا۔ اس دوران ایک اغواء کار کی نقاب سرک گئی اور رانا صاحب نے اسے پہچان لیا، پھر ان ایک درجن مسلح افراد نے رانا ثناء اللہ کے ہاتھ پائوں باندھ کر ان کی مونچھیں، بھنویں اور سر کے بال مونڈھ دئیے اور فیصل آباد سے لاہور موٹر وے کے راستے پر پھینک دیا۔ چند دن کے بعد وہ پنجاب اسمبلی میں ایک دفعہ پھر پرویز مشرف کو للکار رہے تھے۔ ان کے موقف میں پہلے سے زیادہ سختی پیدا ہوگئی۔

2010میں اسلام آباد میں ’’دی نیوز‘‘ کے عمر چیمہ کو اغواء کرکے ان کے ساتھ وہی کیا گیا جو فیصل آباد میں رانا ثناء اللہ کے ساتھ ہوا تھا۔ رانا صاحب پنجاب کے وزیرِ قانون تھے۔ انہیں پتہ چل گیا کہ جس نقاب پوش کو انہوں نے فیصل آباد میں پہچانا تھا، عمر چیمہ پر تشدد اسی کی نگرانی میں ہوا تھا۔ رانا صاحب اس تشدد کی انکوائری کرنے والے جوڈیشل کمیشن کے سامنے اسلام آباد میں پیش ہوگئے اور ملزم کی نشاندہی کردی لیکن اس کمیشن کی رپورٹ آج تک منظر عام پر نہیں آئی۔

 

یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا ہے۔رانا ثنا اللہ کو اپنی رہائی کے عوض دس، دس لاکھ روپے کے دو ضمانتی مچلکے جمع کروانے ہوں گے۔


سوشل میڈیا صآرفین رانا ثناء اللہ کی ضمانت پر وزیر مملکت شہریار آفریدی سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سینئر صحافی عارف حمید بھٹی  نے کہا کہ  حیرت کی بات ہے کہ اتنی مقدار میں برآمد ہوئی ہو تواے این ایف کی ہسٹری کا شایدیہ پہلا کیس ہوگا کہ ضمانت اتنی جلدی ہوگئی ہو، ایک طرف شہریار کہتے تھے کہ فوٹیج ہے ، عدالت میں ثابت کریں گے، عدالت میں جو ثبوت آتے ہیں، اسی پر فیصلہ ہوتاہے ۔

عارف حمید بھٹی کاکہناتھاکہ شہریار آفریدی کو اب استعفیٰ دے دینا چاہیے ، اگرعدالت نے سمجھا ہے کہ یہ کیس غلط ہے اور اسی بنیاد پر ضمانت لی ، پھروہ منشیات تھی کس قسم کی ، رکھی رکھائی کس نے تھی ، اس کا تعین کریں، شہریار کے لیے بھی امتحان ہے کہ کیسے ایک سابق وزیر پر اس طرح کا مقدمہ بنایا، آج وہ مقدمے کے حق میں کوئی چیزثابت نہیں کرسکے۔ 

شاہ زیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ شہریار آفریدی جھوٹ کا جواب دیں ، انہوں نے اللہ رسول کی قسمیں کھا کر جھوٹ بولا، یہ کون سی مدینہ کی ریاست میں ہوتا ہے کہ دوران ٹرائل جج کو ہٹا دیا جاتا ہے۔ اب شہریار آفریدی اور اے این ایف کو جواب دینا ہو گا۔ کیا اس کیس میں فوج کے ادارے کو بھی ملوث کیا گیا۔

https://twitter.com/hinaparvezbutt/status/1209407640855597056?s=20

https://twitter.com/UmaidRajpoot97/status/1209423188221943810?s=20

https://twitter.com/abualeeha/status/1209417538486059008?s=20

https://twitter.com/HafizMuzamil0/status/1209419536249884673?s=20

https://twitter.com/aamir4812/status/1209411048358457345?s=20

https://twitter.com/realrazidada/status/1209408341585334272?s=20

https://twitter.com/TalhaGhouri786/status/1209410686713049088?s=20