قاضی، منصف، جج، جسٹس، مائی لارڈ، یور آنر، حضور، حضورِ والا، سر، جناب سب ایک ہی شخص کے نام ہیں۔ جسے اللہ نے عزت سے نوازا ہے۔ اس نے قانون کی ڈگری حاصل کی، وکالت شروع کی، محنتِ شاقہ سے اپنا مقام بنایا، عزت، شہرت اور دولت سے نوازا گیا۔ آئین اور قانون پر اس کی دسترس ہے، کردار اس کا شفاف ہے، گفتار کا وہ غازی ہے اور تحریر کا بادشاہ۔ عدالتوں میں ہر وقت ایسے قابل لوگوں کے لئے جگہ خالی ہوتی ہے۔ سو جلد یا بدیر اسے اپنی جگہ پر بیٹھنا ہی پڑتا ہے۔ سو ایک دن وہ قاضی بن جاتا ہے۔
دیکھنے والوں کے لئے وہ ایک پھولوں کی سیج ہے لیکن قاضی کے لئے اس کا عہدہ ایک آزمائش ہے۔ قاضی کی صبح بہت جلدی ہو جاتی ہے۔ سہ پہر تک عدالت میں مقدموں کی سماعت، شام فیصلے تحریر کرنے کی نذر، تھکن سے چور دن کا اختتام، رات جلدی بستر کی نذر۔ وکالت کی آزادی گئی، اور نوکری کی بندش علیحدہ۔ عزت اور شہرت برقرار لیکن گھر شیشے کا اور ہر لمحہ چوکس کہ ایک چھوٹا سا کنکر عمر بھی کی عزت خاک میں ملانے کے لئے کافی۔ دولت وکالت کے زمانے سے کوسوں دور، ایک طرف انصاف کے تقاضے اور دوسری طرف عزیز و اقارب، دوست رشتہ دار اور دیگر سماجی توقعات کا سیلاب۔ طاقتور حلقے الگ خائف اور کمزور طبقات کے علیحدہ گلے شکوے۔ اپنا دامن صاف تو اہل و عیال کا صاف تر رکھنے کی لگن کہ نظر نہ آنے والا ظالم ہر وقت تاک میں۔ بے پناہ آئینی اور قانونی اختیارات لیکن تنقید کا جواب دینے کا اختیار ندارد۔ فیصلے لکھنے کا اختیار لیکن ان کی وضاحت کا اختیار نہیں۔ سماجی زندگی تقریباً مفقود، حتیٰ کہ قریبی عزیز، رشتہ دار اور دوستوں سے ہر وقت دھڑکا کہ کہیں ان کی کہی بات دانستہ نادانستہ انصاف میں مخل نہ ہو جائے۔
پھر عملی زندگی کی دھول، کون ذی روح ہے جواس سے محفوظ ہو۔ کتاب میں لکھا ہوا قانون تو شبیہ ہے اصل قانون تو زمانے کی لوح پر لکھا ہے، زمانہ جو قانون کا سب سے بڑا استاد ہے۔ اصل قانون تو لوگوں کے سماجی رویوں اور توقعات میں لکھا ہے۔ اور اصل قانون تو گوشت پوست کے جسم اور اس جسم میں قید غیر مرئی روح کے تقاضوں سے منسلک مجبوریوں میں لکھا ہے۔ کتاب کا قانون اصل قانون کا چاہے بھی تو احاطہ نہیں کر سکتا۔ پھر کتابی قانون کے معیار کا انحصار براہ راست قانون بنانے اور خصوصاً اسے لکھنے والے کی قابلیت، مہارت، بنیادی قانونی تصورات اور الفاظ و معانی پر اس کے عبور پر منحصر ہے۔ ایسے میں نیک ترین انسان بھی دنیا داری کے ساتھ ساتھ کتابی قانونی کا ہر تقاضہ پورا نہیں کر سکتا۔ اور نظر نہ آنے والا دشمن ہر وقت تاک میں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اصل مقتدرہ، مقننہ اور انتظامیہ (نیب، الیکشن کمیشن، وفاقی اور صوبائی حکومتیں، بیوروکریسی) کے لئے ہر گناہ معاف اور قاضی کی معمولی ترین لغزش بھی قابلِ تعزیر۔
وکلا تحریک کی کامیابی سے پہلے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ پر کٹھ پتلی عدالتیں، ڈوگر کورٹس، کینگرو کورٹس جیسے الزامات لگتے رہے اور اگر پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ پڑھیں تو ایسے ایسے قاضی بھی گزرے ہیں کہ یہ الزام بے جا بھی نہیں تھے۔ عدلیہ کی تاریخ پر بہت سی کتابیں معتبر وکلا اور سابق جسٹس صاحبان نے لکھی ہیں۔ وہ قاضی عدالتوں میں عوام کے فیصلے کرتے تھے لیکن آج عوام کے کٹہرے میں ہیں۔ اور عوام اور تاریخ ایسے قاضیوں کے خلاف فیصلہ دے چکے ہیں۔
عدالتی تاریخ گواہ ہے کہ ایک ذہن کی تربیت طاقت کا استعمال اور اس کے ذریعے خوف پیدا کرنا ہے جب کہ ایک ذہن کی تربیت ہے کہ معاشرے اور اس میں بسنے والے انسانوں کو ایک ایسے بہتر اور طے شدہ نظام کے ذریعے چلانا ہے جس سے ان کی ذات، معاش، عزت، عصمت محفوظ رہے اور اس طے شدہ نظام کو تحریری شکل دی جائے اور اسی تحریری شکل کا نام آئین ہے۔ پہلی ذہنیت کے لئے آئین ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے جب کہ دوسری ذہنیت کے لئے آئین بہتر اجتماعی زندگی کی ضمانت ہے۔ ہر قاضی آئینی سانچے میں تربیت پاتا ہے لیکن وقت کے ہر قاضی کو پہلی ذہنیت سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ ہر قاضی آزمائش سے گزرتا ہے لیکن جو عوام اور تاریخ کی عدالت سے سرخرو ہو، وہی اصل قاضی ہے۔