آس پاس خاموشی تھی نہ تنہائی ۔ ہاں ویرانی ضرور تھی ۔ ان گنت لوگ ۔ ۔۔بھانت بھانت کی بولیاں ۔ شور میں کوک اور ہوک تھی ۔ جذبات اور امید یں بھی ۔ احساس آواز کو مجسم کرتا ہے ۔ اور آواز جذبات کے بتوں میں روح پھونکتی ہے ۔ احساس اور جذبات کے بغیر آواز بھنبھناہٹ نہیں تو اور کیا ہے ۔ باہر گلی سے گزرتے رکشاوں اور گاڑیوں کا شور منظر کو اور افسردہ بنارہا تھا ۔ بارش کے بعد دھوپ نکلے تو کون کمبخت ساون کے گن گاتا ہے ۔ سارے منظر پر عقیدت کا ہالہ تھا ۔ اور کچھ ہو نہ ہو عقیدے کا دلاسہ بڑا کمال ہوتا ہے ۔
بیبیاں صاحب کے اس بوجھل سے ماحول میں لاتعداد سسکیاں ۔ آرزویں اور شکرانے تھے ۔ یوں تو خواہشات کی کوئی منزل نہیں ہوتی ۔ اگر تقدیر سے آرزو کی آوارہ تتلیوں کی مڈھ بھیڑ ہوجائے تو نیاز بٹتی ہے ایسا نہ ہو تو امید کا سفر پھر سے شروع ۔۔۔ مزار کے پکے فرش سے چھ انچ اوپر تک ۔۔۔ میلے کچلیے ۔۔۔ کالے ۔۔سانولے اور پیڈی کیور کا جلوہ دکھاتے سیکنڑوں پاوں تھے ۔۔۔ ہر کوئی مسافر تھا ۔۔۔ یہ سینکڑوں پیراور ان میں پہنے نیاز کے کڑے ۔۔۔ پورا منظر ایک خاکہ تھا ۔۔۔ اوراس خاکے کے سبھی کردار بھی خاکے ہی تھے ۔۔۔۔ محض خاکے ۔۔۔۔ ایسے تصویری کردار جن کے نقش ونگار منہ زور بارشوں نے دھو کر کینوس پر ویرانیاں بکھیر دی ہوں ۔۔۔
اس کہانی میں کوئی کردار نہیں سب خاکے ہیں ۔۔۔ ایسے خاکے جن کے مٹے نقوش میں گہرائی بھی ہے اور زندگی کا فلسفہ بھی ۔۔۔ زمانے نے بھی کیا ہاتھ دکھایا فلسفہ دیا تو وہ بھی اوروں کے کام آیا ۔۔۔ میڈیا کے مائیک اور کیمرے نے آپ بیتی سنی لیکن مراد والی جھولی سونی رہی ۔۔۔ لے اڑے بیچاری کے تجربے کا نچوڑ ۔۔
نام ارم ہو ۔۔ کرن ۔۔۔ فاطمہ ۔۔ یا سکینہ کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔۔ پہچان نہیں تو نام سے کیا لینا ۔۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے کوئی نام اور پہچان والی پہنچی ۔۔۔ لمبی گاڑی ۔۔۔ بڑھیا خشبو ۔۔۔ ناز نخرہ اور ادا سب کچھ ۔۔۔۔ بادلوں کی گھن گرج نے ابھی ادھر کا رخ نہیں کیا تھا ۔۔۔۔
ہاتھ میں نذر کی تھالی ۔۔۔ چہرے پر عاجزی ۔۔۔ خواہشوں کی تتلیاں اسکے مقدر کا پیچھا کرتیں ۔۔۔ یہ سب کچھ بیبیاں صاحب حاضری کی برکت تھی ۔۔۔ اس حسینہ کی نیاز محض بانٹ کا لڈو نہ تھی ۔۔۔ یہ تو بھاگوان ہے ۔۔۔ ہو سکتا ہے میرے سوئے بھاگ بھی جاگ جائیں ۔۔۔ نیاز کی تھالی کی طرف لپکتے ہاتھوں میں ایک گوری چٹی بانہہ کا اضافہ ہو گیا ۔۔۔۔ وہ بھی تو آرزوں کی گٹھری اٹھائے پہنچی تھی ۔۔۔۔ وہ کون تھی ۔۔۔ چھوڑیئے نام میں کیا رکھا ہے ۔۔۔
خواہشات کی دوڑ انسان کو زندہ رکھتی ہے اور خاکوں کو بھی ۔۔۔ لیکن اس دوڑ میں تھک جانے والے صرف رسم زندگی نبھاتے ہیں۔ بیبیاں صاحب کے آستانے کے کونے کھدوروں میں ایسے تھکے ہاروں کی بھی کمی نہ تھی ۔۔۔ جو پہلے جینے کے لئے آرزوں کا پیچھا کرتے رہے ۔۔ اور انہیں معلوم ہی نہ ہو سکا کہ تمناوں کے گھنے جنگل میں بھٹک کر وہ کہاں سے کہاں آ پہنچے ۔۔۔۔ دیوار سے لگی گدڑی میں لپٹی ۔۔۔ چاندی کے سے چمکتے بالوں والی کا سفر کہاں سے شروع ہوا وہ خود بھول چکی ہے ۔۔۔۔ وہ بھول چکی ہے کہ آیئنے نے اسے کیا کیا خواب دکھائے تھے اور اسکا باپ کوٹھری کا دروازہ بند کرکے کس کس کے ساتھ دبی دبی لذت بھری آوازیں نکالتا تھا ۔۔۔ باہر داڑھی منڈوانے یاحجامت بنو انے کی غرض سےآنے والے باپ کی ماں بہن اور بیٹی کی شان میں کیا کیا کہتے تھے ۔۔۔ ہاں وہ نہیں بھول پائی تو ایک منادی والا تھا جو کامنی کوشل ۔۔۔ وجنتی مالا اور راگنی کے بڑے بڑے پوسٹر ٹانگے پر لگا کر فلموں کی تشہیر کیا کرتا تھا ۔۔۔ کامنی کوشل ۔۔۔ راگنی ۔۔ وجنتی مالا صرف یہی تو نام تھے باقی سب تو خاکے ہیں ۔۔۔۔
مصںف پیشہ کے اعتبار سے کسان اور معلم ہیں۔ آرگینک اگریکلچر کے ساتھ ساتھ لائیو سٹاک کے شعبہ میں کام کرتے ہیں۔ ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور عرصہ 20 سال سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے منسلک ہیں۔ کرئیر کی ابتدا ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور ڈرامہ نگار کی جسکے بعد پی ٹی وی اور parallel theater کے لئیے بھی لکھتے رہے ہیں۔