مذہبی شخصیات کی جانب سے غیر منطقی بیانات بقا کی آخری کوششیں ہیں

مذہبی شخصیات کی جانب سے غیر منطقی بیانات بقا کی آخری کوششیں ہیں
گزشتہ روز ایک خبر نظر سے گزری جس کے مطابق دیوبندی حنفی عالم دین، مناظر اور خطیب مولانا الیاس گھمن نے اپنے حالیہ خطاب میں کہا ہے کہ مدرسے کا فاسق طالب علم کالج کے ولی سٹوڈنٹ سے بہتر ہے۔
تفصیلات کے مطابق ایک ویڈیو میں انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ مدرسے کا فاسق طالب علم کالج کے ولی سٹوڈنٹ سے افضل ہے۔ انہوں نے اسی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ مدرسے کا گنہگار اور درویش طالب علم کالج کے نہایت نیک قسم کے سٹوڈنٹ سے بہتر ہے۔
یہ خبر پڑھنے، سننے اور سمجھنے کے بعد ابتدائی رد عمل کے چند لمحوں میں تو دل و دماغ چیخ اٹھے کہ یہ کیا لوگ ہیں؟ کس دنیا کے باسی ہیں؟ تاہم کچھ دیر کے بعد مولانا صاحب کی گفتگو اور دعووں میں چھپے اس موازنے کے پیچھے محرکات، اس سوچ کی پیدائش کے عوامل اور زاویوں کی بنیاد اس پر غور کرنا شروع کیا۔ بظاہر مولانا الیاس گھمن کا یہ بیان عقل سے عاری منطق پر بھاری معلوم پڑتا ہے۔ تاہم یہ بقا کے اس دباو کی ایک علامت ہے جو اس وقت مذہب کے یہ نمائندے محسوس کر رہے ہیں۔ معاملات واضح ہیں۔ اس ملک میں بیک وقت تین سے چار قسمی تعلیمی دھارائیں بہہ رہی ہیں۔ اشرافیہ کے انگریزی میڈیم اداروں سے لے کر متوسط طبقے کے انگریزی و اردو میڈیم جسے آج کل آسانی سے سمجھنے کے لیئے میڑک یا او لیول کہا جاتا ہے اور پھر غریب تر طبقے کے لئے سرکاری سکول اور پھر مفلسی کا شکار گھروں کے لئے دینی مدارس۔ یہ تمام دھارائیں ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے چکی ہیں جس کی ہر بیونت دوسرے کے مخالف ہے۔ یہ تمام تعلیمی ادارے جن طلبا کو فارغ التحصیل کر رہے ہیں ان کا دنیا کو دیکھنے کا زاویہ، انکے اقدار، لالچ و ایمانداری، نیک و بد کی تعریفات ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے باہم الجھتے رہتے ہیں اور بسا اوقات تو تصادم خیز شکل میں۔ تاہم ٹیکنالوجی کی جدت، عالمی ابلاغیات کے نظام اور ایک ایسے عالمی سیاسی نظام میں جہاں مذہب کی جگہ روز بروز کم سے کم تر ہو چکی ہے اب مدارس سے جڑے ہوئے طلبا اپنے آپ کو دوسرے نظام تعلیم سے بہرہ مند ہونے والے طلبا کے مقابلے میں خسارے میں محسوس کرتے ہیں۔ وہ بھی دنیاوی علوم حاصل کررہے ہیں اور ایک مخصوص مذہبی شناخت اور محدود سمجھ بوجھ کے باعث خود کو ایک حد کے بعد آگے بڑھنے سے قاصر پاتے ہیں۔ ایسے میں ایک فطری خواہش کے تحت ان نوجوانوں کا بھی دوسرے تعلیمی اداروں کی جانب رجحان ہو رہا ہے یا کم از کم وہ ان اداروں اور انکے طلبا کو رشک کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں۔ ابھی حال ہی میں مجھے مختلف مدارس کے بچوں سے بات چیت کا موقع ملا اور اس میں میرے لیئے حیران کن بات یہ تھی کہ ان میں سے 90 فیصد کے زندگی کے بارے میں عزائم وہی تھے جو عام تعلیمی نظام میں موجود طلبا کے۔ جب کہ دینی تعلیمی نظام ان کے ان خوابوں اور عزائم کو پورا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا بلکہ وہ انہیں ان سے روکتا ہے۔ نتیجے کے طور پر یہ نوجوان جب اس پورے نظام اور اس کے قائم کردہ تشخص اور انکی اپنی شخصیت کے بارے اس نظام کی دی گئی تعریفات پر متشکک ہو رہے ہیں تو  یہی دباو ہے جس کو مذہبی بیانیہ ساز محسوس کر رہے ہیں۔ اور پھر  اسی کے تحت مولانا الیاس گھمن اور ان جیسے دیگر  علما بودے بیانات دیتے  روز نظر آتے ہیں۔