عوام سے لا تعلق حکمران کے غیر منطقی فیصلے

عوام سے لا تعلق حکمران کے غیر منطقی فیصلے
قومی احتساب بیورو نے ایک مرتبہ پھر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شیخ اکرام الحق کو پاکستان سٹیٹ آئل کا مینیجنگ ڈائریکٹر لگایا تھا۔ شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ساتھ سابق سیکرٹری پٹرولیم ارشد مرزا کو بھی اس ریفرنس میں نامزد کرتے ہوئے ان کے خلاف ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں۔

اس سے قبل 2018 میں نیب نے سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ شیخ اکرام الحق کو PSO کا مینیجنگ ڈائریکٹر شفاف انداز میں نہیں لگایا گیا اور چونکہ وہ ماضی میں اینگرو کارپوریشن کے ساتھ بھی کام کر چکے تھے اور بطور مینیجنگ ڈائریکٹر PSO انہوں نے اپنی سابق کمپنی کو LNG کا ٹھیکہ دیا، لہٰذا یہ بھی مفادات کے ٹکراؤ کے زمرے میں آتا ہے۔

LNG کیس میں اکرام الحق اور شاہد خاقان عباسی پہلے ہی نامزد ہیں۔ اس کیس میں سابق مشیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل بھی نامزد ہیں۔

مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ملک اس وقت کورونا وائرس سے جنگ لڑ رہا ہے اور نیب-نیازی گٹھ جوڑ اس وقت بھی اپوزیشن کے خلاف ریفرنسز قائم کرنے میں مشغول ہے جس سے کورونا وائرس سے متعلق اس کی سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے۔

یاد رہے کہ شاہد خاقان عباسی اور عمران الحق کو ماضی میں بھی کئی ماہ جیل میں رکھنے کے بعد بغیر کوئی ریفرنس فائل کیے رکھا گیا تھا۔ اس دوران عباسی صاحب کے مطابق نیب نے ان سے کوئی تفتیش تک نہیں کی۔ یہی وجہ تھی کہ جب کئی ماہ کی قید و بند کے بعد شاہد خاقان عباسی نے مسلم لیگ نواز کی قیادت کے اسرار پر عدالت میں ضمانت کی درخواست دی تو انہیں فوری طور پر ضمانت دے دی گئی تھی۔

سابق وزیر اعظم کے ساتھ مفتاح اسماعیل بھی اس کیس میں کئی ماہ جیل میں رہے تھے اور انہوں نے جمعہ کی شام ٹوئٹر پر اس حوالے سے اپنا تجربہ اور مؤقف سب کے سامنے رکھا۔

مفتاح کا کہنا تھا کہ ان کو 50 دن نیب کی قیدِ تنہائی اور بعد ازاں تین ماہ اڈیالہ جیل میں رکھا گیا اور آج کی تاریخ تک، باوجود اس امر کے کہ مجھے 6 اگست 2019 اور شاہد خاقان عباسی کو 18 جولائی 2019 سے گرفتار رکھا جا رہا تھا، کوئی ریفرنس فائل نہیں کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے نیب کی آسانی کے لئے یہ چیلنج کر رکھا تھا کہ پاکستان سے باہر دنیا بھر میں 30 LNG ٹرمینل موجود ہیں اور اگر ان میں سے کوئی ایک بھی ٹرمینل پاکستانی ٹرمینل کے مقابلے میں کم خرچ میں بنایا گیا ہے تو وہ نیب کے ہر الزام کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ نیب دنیا میں ایک بھی ایسا ٹرمینل ڈھونڈنے میں ناکام رہی لیکن اس کے باوجود ہمیں گرفتار کیے رکھا گیا۔

انہوں نے ایک بار پھر نیب کو یہ پیشکش کی ہے کہ PSO نے جو LNG قطر سے خریدی ہے، اگر دنیا میں نیب ایک بھی اس سے سستی LNG کی ڈیل دکھا دے تو وہ اپنے خلاف تمام الزامات قبول کرنے کو تیار ہیں۔ ان کے مطابق نیب نے صرف ایک معاہدہ عدالت میں پیش کیا جو کہ قطر اور بھارت کے درمیان تھا اور پاکستان کے معاہدے سے ایک ماہ قبل ہی کیا گیا تھا۔ مفتاح نے لکھا کہ یہ معاہدہ بھی پاکستان سے مہنگا تھا لیکن نیب کے وکیل نے اس لئے عدالت میں پیش کر دیا تھا کہ انہیں slope اور  constant کے درمیان فرق کا نہیں پتہ چل سکا تھا۔

اگر مفتاح اسماعیل مبالغہ آرائی سے بھی کام لے رہے ہیں تو اس میں قصور نیب اور اس کے تفتیش کاروں کا ہے جو واقعتاً اس تمام عرصے میں شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کے خلاف کچھ بھی ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔ یوں بھی یہ دونوں حضرات دعویٰ کر چکے ہیں کہ ان سے جیل کے تمام عرصے میں کوئی تفتیش کی ہی نہیں گئی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت اس نئے ریفرنس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ ملک اس وقت ایک ایسی وبا سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے جس میں اس وقت تک 1363 متاثرین سامنے آ چکے ہیں جب کہ دنیا بھر میں اس وقت مرنے والوں کی تعداد 27 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ ملک میں لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے اور معیشت کا بھٹہ بیٹھنے کے قریب ہے۔ اور یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ صورتحال کب تک برقرار رہے گی۔

دوسری طرف حکومت کے حالات یہ ہیں کہ وزیر اعظم نے پارلیمانی پارٹی سربراہان کا اجلاس بلایا، اس سے چند منٹ بات کی اور جب اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بات کرنا چاہی تو وہ اٹھ کر چلے گئے، جس پر نالاں ہو کر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے واک آؤٹ کیا۔ دنیا بھر میں مشکل حالات میں حکومتیں اپوزیشن کو اپنے قریب لانے کی کوشش کرتی ہیں اور ملک میں ہم آہنگی کی فضا کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہاں اپوزیشن حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور حکومت خود حالات کو بگاڑنے پر تلی ہے۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ نیب ایک خودمختار ادارہ ہے، لیکن کاش اس پر پاکستان میں کوئی یقین کرنے کو تیار ہوتا۔ خود وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ برس امریکہ میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ شاہد خاقان عباسی بار بار کہتا تھا کہ مجھے گرفتار کرو۔ ہم نے گرفتار کر لیا ہے۔ وفاقی وزیرِ سائنس فواد چودھری بھی حامد میر کے پروگرام میں کہہ چکے ہیں کہ نیب تو سابق حکومتوں میں بھی موجود تھی لیکن گرفتاریاں اب ہی کی جا رہی ہیں کیونکہ یہ ہماری حکومت کا فیصلہ ہے۔

انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم ایک عالمی وبا کے سامنے بھی متحد ہونے کو تیار نہیں۔ حکومت تفتان بارڈر پر اپنی نااہلی سے وائرس کو ملک میں پھیلانے کا مؤجب بنی۔ اس کے بعد کئی دن تک لاک ڈاؤن کے فیصلے پر ٹال مٹول کی جاتی رہی۔ جمعہ اور دیگر مذہبی اجتماعات پر پابندی عائد کرنے میں کئی دن ضائع کر دیے گئے اور اب سیاسی ہم آہنگی کی فضا کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوشش حکومت ہی کی جانب سے کی جا رہی ہے۔

لگتا یہی ہے کہ عمران خان صاحب مسائل کے حل میں مستقل غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بعد اب مکمل طور پر لاتعلقی کی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ یہ ملک کے لئے اچھا شگون نہیں۔ اس وقت ملک کو قیادت کی ضرورت ہے اور عمران خان ملک کو یہ دینے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ انہیں بہت جلد اپنے اطوار پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی۔ مستقبل کا مؤرخ شاید یہی لکھے گا کہ جس وقت پاکستانی قوم معیشت اور صحتِ عامہ کے بحرانوں سے دو چار تھی، اس کا وزیر اعظم نت نئے سیاسی محاذ کھولنے میں مصروف تھا۔